بہار میں تبدیلی کا وعدہ: لالو خاندان کی عوام سے ووٹنگ کی اپیل

پرانے چہرے، نئے خواب: بہار اسمبلی انتخابات میں لالو...

کیرالہ میں غربت کے خاتمے پر چین کے سفیر نے دی مبارکباد

کیرالہ کی حکومت نے انتہائی غربت کے خاتمے میں...

اندرا گاندھی کو کانگریس کا خراجِ تحسین: مسز گاندھی کی یادیں تاریخ کو زندہ کرتی ہیں

کانگریس نے ’شکتی استھل‘ پر اندرا گاندھی کی جدوجہد...

جے این یو میں تشدد کا واقعہ: طلبہ گروپوں کے درمیان جھڑپ کی حقیقت

دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو)...

ہم بھارت کے لوگ جب آئین ہند پڑھتے ہیں تو متحد نظر آتے ہیں

جب ہم آئین کی تمہید پڑھتے ہیں تو یہ احساس ہوتا ہے کہ فی الحال تو ’ہم بھارت کے لوگ‘ سب ایک ہیں اور آئین کی اصل روح کو بچانے میں کامیاب ہیں

تحریر: ڈاکٹر یامین انصاری

’’ہم بھارت کے لوگ متانت و سنجیدگی سے عزم کرتے ہیں کہ بھارت کو ایک مقتدر سوشلسٹ سیکولر عوامی جمہوریہ بنائیں گے اور اس کے تمام شہریوں کے لیے:سماجی، معاشی اور سیاسی انصاف؛ خیال، اظہار، عقیدہ، مذہب اور عبادت کی آزادی، بہ اعتبار حیثیت اور موقع مساوات حاصل کریں گے اور ان سب میں اخوت کو فروغ دیں گے، جس سے فرد کی عظمت، قوم کے اتحاد اور سالمیت کا تیقن ہو، اپنی آئین ساز اسمبلی میں آج 26/نومبر 1949ء کو یہ آئین ذریعہ ہذا اختیار کرتے ہیں، وضع کرتے ہیں اور اپنے آپ پر نافذ کرتے ہیں۔‘‘

ہندوستانی آئین کی یہ تمہید ہمارے دستور کا ایک مختصر تعارف نامہ ہے، جس کا ایک لفظ انتہائی اہم اور با معنی ہے۔ اس میں ہندوستان کے باشندوں کی رہنمائی، آئین کے اصول و ضوابط کی پیش کش، عوام کی امیدوں، توقعات اور عزائم کو عملی جامہ پہنانا اور اس ماخذ کا اعلان کرنا ہے، جہاں سے یہ دستاویز ماخوذ ہے۔ اس تمہید کو بجا طور پر مکمل دستور کا نمائندہ پیش لفظ بھی کہا جا سکتا ہے۔

26 جنوری 1950ء سے پہلے ہمارا ملک

ہمارا ملک بھلے ہی 15؍ اگست 1947ء کو آزاد ہو گیا تھا، لیکن ایک خودمختار ملک تب ہی وجود میں آتا ہے جب اس کا اپنا دستور ہو اور ایک نظام ہو۔ اس لحاظ سے ہندوستان کو 26؍ جنوری 1950ء کو ایک خودمختار ملک کا درجہ ملا جب ہماری دستور ساز اسمبلی کے 366؍ ممبران نے آئین کو پاس کیا۔ اس سے قبل برطانوی حکومت نے ’انڈیا انڈیپنڈنس ایکٹ‘ کے تحت ملک کی باگ ڈور ہمارے قائدین کو سونپی تھی۔ یعنی 26؍ جنوری 1950ء سے پہلے ہمارے ملک میں تقریباً وہی قوانین نافذ تھے جو برطانوی پارلیمنٹ نے 1935ء میں ترمیم شدہ نوآبادیاتی قانون پاس کیے تھے۔ حالانکہ آزادی کے فوراً بعد 28؍ اگست 1947ء کو ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کی سربراہی میں آئین ساز کمیٹی تشکیل دی گئی اور کمیٹی نے اسی سال 4؍ نومبر کو دستور ساز اسمبلی کو ایک مسودہ بھیجا۔

جشن جمہوریہ

اسمبلی کے کل 166؍ اجلاس ہوئے اور کافی بحث و مباحثے کے بعد بالآخر دو سال 11؍ ماہ اور 18؍ دن کے بعد 308؍ ممبران نے ایک خودمختار ہندوستان کے آئین پر دستخط کیے اور 24؍ جنوری 1950ء کو حکومت کے پاس بھیجا۔ دو روز کے بعد 26؍ جنوری کو حکومت نے اسے منظور کر لیا۔ اس طرح 26؍ جنوری 1950ء کو اس کا نفاذ عمل میں آیا۔ بعد ازاں یہی تاریخ ہندوستان کا یوم جمہوریہ کہلائی اور اسی عنوان سے ہر سال اس دن کو جشن جمہوریہ کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر امبیڈکر لکھتے ہیں ’یہ درحقیقت ایک طرز زندگی تھا جو آزادی، مساوات اور اخوت کو زندگی کے اصولوں کی حیثیت سے تسلیم کرتا ہے اور یہ اصول ایک دوسرے سے کبھی جدا نہیں ہوتے: چنانچہ آزادی مساوات سے جدا نہیں ہوتی، مساوات آزادی سے اپنا رشتہ منقطع نہیں کرتی۔ اسی طرح آزادی اور مساوات اخوت سے الگ نہیں ہوتے۔ آزادی مساوات کے بغیر چند افراد کو برتری عطا کر دیتی ہے۔ مساوات آزادی سے ہم رشتہ نہ ہو تو انفرادی اقدامات کو کچل دیتی ہے۔ نیز اخوت کے بغیر آزادی اور مساوات چیزوں کے فطری بہاؤ کو قائم نہیں رکھ سکتے۔‘

کسی بھی جمہوری ملک کی بنیادیں

اب ذرا آئین ہند کی اس تمہید، اس کے مقاصد اور قانون سازوں کے عزائم کی روشنی میں موجودہ حالات کا جائزہ لیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اعتماد، اخلاقی اقدار اور انسانیت کے تئیں ایمانداری جمہوریت کی کامیابی کی ضامن ہے۔ اس کے ساتھ ہی مساوات، ہم آہنگی، بھائی چارہ اور حب الوطنی وہ اقدار ہیں جن سے کسی بھی جمہوری ملک کی بنیادیں مضبوط ہوتی ہیں۔ 72؍ سال کے بعد آج بھی ہماری جمہوریت تمام تر نشیب و فراز، خدشات اور تحفظات کے درمیان مضبوطی کے ساتھ فی الوقت تو دنیا کے سامنے کھڑی ہے۔ اس کی اصل وجہ ہمارے آئین کی روح، ہماری اقدار و روایات، کثرت میں وحدت اور رنگ برنگی تہذیب وثقافت ہے۔ یہ سب مل کر اس ملک کی روح بنتے ہیں اور یہی روح ملک کی مضبوطی کا سبب بنتی ہے۔

اب اس ملک کے ہر باشندے کی ذمہ داری ہے کہ جب بھی ملک کے آئین، اقدار و روایات اور تہذیب و ثقافت پر آنچ آئے تو وہ اس کو بچانے کے لئے آگے آئے۔ کچھ طاقتیں نہیں چاہتیں کہ یہ ملک اپنے شاندار ماضی اور اپنی اقدار و روایات کے ساتھ آگے بڑھے۔ اسی لئے پچھلے کچھ عرصہ سے مسلسل ایسی کوششیں ہو رہی ہیں کہ ہندوستان کے کثیر رنگی اور تکثیری ثقافت کے تانے بانے کو منتشر کر دیا جائے اور کسی مخصوص تہذیب، کسی خاص فکر اور کسی تنظیم کی اجارہ داری کو اس ملک پر تھوپ دیا جائے۔ اگر یہ طاقتیں اپنے عزائم میں کامیاب ہو گئیں تو نہ یہ ملک مضبوط رہ پائے گا اور نہ ہی ملک کا دستور اور جمہوریت۔

2022ء کا یوم جمہوریہ

افسوس 2022ء کا یوم جمہوریہ ہم ایک ایسے دور میں منا رہے ہیں جب نہ صرف آئین، بلکہ ہندوستان کی اصل روح کو نکالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ آئین کی تمہید میں شامل ’سوشلسٹ‘ اور ’سیکولر‘ جیسے الفاظ اب غیر ضروری لگ رہے ہیں۔ عوامی جمہوریہ بنائے رکھنے کا عزم دم توڑتا نظر آ رہا ہے۔ شہریوں کے لیے سماجی، معاشی اور سیاسی انصاف ایک خواب بنتا جا رہا ہے۔خیالات، اظہار رائے، مذہب اور عبادت کی آزادی پر پہرے بٹھانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ مساوات اور اخوت و بھائی چارہ کو مضبوط کرنے کے بجائے اسے تار تار کیا جا رہا ہے۔ ملک کے اتحاد اور سالمیت کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔

آئین کی تمہید میں 42؍ ویں ترمیم کے ذریعہ شامل الفاظ ’سیکولر‘ اور’سوشلسٹ‘ انتہاپسندوں کی آنکھوں میں ہمیشہ سے کھٹکتے رہے ہیں اور شدت پسند تنظیمیں کھلے طور پر یہ کہتی رہی ہیں کہ ان دونوں الفاظ کو آئین سے ہٹا دینا چاہیے۔ انہیں ہٹانے کے لئے نہ صرف سپریم کورٹ میں ایک عرضی داخل کی گئی، بلکہ پارلیمنٹ کے ذریعہ بھی کوشش کی گئی کہ ان الفاظ کو کالعدم قرار دے دیا جائے۔ کہا گیا کہ اس سے شہریوں پر سیاسی نظریہ تھوپا جا رہا ہے، کیونکہ حقیقت میں سیکولرازم اور سوشلزم سیاسی نظریہ ہے۔

ہری دوار میں ’دھرم‘ کے نام پر ہونے والی ’سنسد‘

بات اب اس سے بھی آگے نکل چکی ہے۔ کچھ طاقتیں تمہید یا کچھ الفاظ ہی نہیں، پورے آئین کو ہی کالعدم قرار دینے کا کھلے عام مطالبہ کرنے لگی ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے ہری دوار میں ’دھرم‘ کے نام پر ہونے والی ’سنسد‘ میں ’بھگوا آئین‘ کو پیش کیا گیا۔ باقاعدہ اسے چھپوا کر لایا گیا اور لوگوں سے اسے اپنانے کی اپیل کی گئی، لیکن کوئی کارروائی نہیں۔ اس سے کچھ عرصہ پہلے مرکزی وزیر رہے اننت ہیگڑے نے ایک عوامی جلسے میں علی الاعلان کہا کہ ’ہم آئین کو بدلنے کے ارداے سے اقتدار میں آئے ہیں‘۔ اس کے علاوہ خود آر ایس ایس کے موجودہ سربراہ موہن بھاگوت نے حیدرآباد میں منعقدہ آل انڈیا ایڈوکیٹ کونسل کی کانفرنس کو خطاب کرتے ہوئے ’ملک کے اقداری نظام کے مطابق آئین اور نظام انصاف‘ میں تبدیلیوں کی وکالت کی تھی۔

شہریت ترمیمی قانون

غرض یہ کہ وقفہ وقفہ سے ہم ایسے بیانات اور خیالات سے روبرو ہوتے رہتے ہیں، جہاں ہندوستانی آئین میں ’مغربی اثرات‘ کا حوالہ دے کر ’ہندوستانی اقدار‘ کو نظر انداز کرنے کے لئے، تنازعات کا شکار بنایا جاتا ہے۔ یہاں ہندوستانی اقدار سے مراد کچھ اور ہی ہوتا ہے۔ اسی طرح آئین میں کئی غیر ضروری ترامیم کی جارہی ہیں۔ شہریت ترمیمی قانون اس کی ایک بڑی مثال ہے۔

ایسے ہی ریزرویشن کے مسئلہ کو بھی بار بار سامنے لایا جاتا ہے۔ ’بھگوا آئین‘ کے ساتھ ساتھ ’منو اسمرتی‘ کو بار بار بحث کا موضوع بنا کر کیا اس ملک کے آئین یعنی اصل روح پر حملہ نہیں کیا جاتا؟ اس کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ جیسے ان سب حرکات کو حکمرانوں کی حمایت حاصل ہے، ورنہ مکمل خاموشی چہ معنی دارد؟ بہر حال جب ہم آئین کی تمہید پڑھتے ہیں تو یہ احساس تو رہتا ہی ہے کہ فی الوقت ہم بھارت کے لوگ سب ایک ہیں اور آئین کی اصل روح کو بچائے رکھنے میں کامیاب ہیں، لیکن آگے کیا ہونے والا ہے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

(مضمون نگار انقلاب دہلی کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر ہیں) yameen@inquilab.com

مضمون میں پیش کیے گئے افکار و آراء مضمون نگار کے ذاتی افکار ہیں