نیتی آیوگ کی ایک رپورٹ میں کشن گنج کو غریب ترین ضلع قرار دئے جانے کے بعد علاقے کی غریبی اور سرکار کی بدنیتی ایک بار پھر موضوع بحث بن چکی ہے
تحریر: جلیس اختر نصیری
نیتی آیوگ کی حالیہ رپورٹ سے کشن گنج سے متعلق بالخصوص اور سیمانچل کے بارے میں جو انکشاف ہوا وہ حالانکہ بہت زیادہ چونکانے والی نہیں ہے لیکن بے حد افسوسناک ہے۔ اس رپورٹ میں کشن گنج ضلع کو بہار کا سب سے غریب ضلع بتایا گیا ہے۔
نیتی آیوگ کی رپورٹ کے مطابق بہار کے 38 اضلاع میں سے کشن گنج سب سے غریب ضلع ہے۔ نیتی آیوگ کے کثیر جہتی غربت انڈیکس (multidimensional poverty index) کی اس تازہ ترین رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بہار کے پانچ اضلاع کے 60 فیصد لوگوں کا تعلق امیر طبقات سے ہے جبکہ ان میں سے 11 اضلاع میں 60 فیصد سے زیادہ لوگ غریب لوگوں کے زمرے میں آتے ہیں۔
سیمانچل علاقے کا کشن گنج ضلع کے 64.75 فیصد لوگ خط افلاس سے نیچے
سیمانچل علاقے کا کشن گنج ضلع جہاں کی آبادی کی اکثریت کا تعلق اقلیتی طبقہ سے ہے یہاں کے 64.75 فیصد لوگ خط افلاس سے نیچے (بی پی ایل) کی زندگی گزار رہے ہیں۔ کشن گنج کے بعد خط افلاس سے نیچے جن اضلاع میں لوگ ہیں ان کی تعداد ارریہ میں 64.65 فیصد، مدھے پورہ ضلع میں 64.43 فیصد، مشرقی چمپارن میں 64.13 فیصد، سپول میں 64.10 فیصد، جموئی میں 64.01 فیصد، سیتامڑھی میں 63.46 فیصد، پورنیہ میں 63.29 فیصد، کٹیہار میں 62.80 فیصد، سہرسہ میں 61.48 فیصد، اور شیوہر میں 60.30 فیصد ہے۔
مذکورہ اضلاع کے علاوہ جن اضلاع کے 50 فیصد لوگ غریب کے زمرے میں آتے ہیں وہ ہیں ضلع مونگیر جہاں غریبوں کی تعداد 40.99 فیصد، روہتاس میں 40.75 فیصد، سیوان میں 40.55 فیصد، اور بھوجپور میں 40.50 فیصد ہے۔
رپورٹ میں پٹنہ کو سب سے زیادہ امیر سمجھا جانے والا بتایا گیا
واضح رہے کہ رپورٹ میں پٹنہ کو سب سے زیادہ امیر سمجھا جانے والا بتایا گیا ہے۔ نیتی آیوگ کی رپورٹ کے مطابق پٹنہ میں بسنے والے 29.20 فیصد لوگ امیروں کے زمرے میں آتے ہیں۔ پٹنہ کے بعد مظفر پور، گیا اور بھاگلپور اضلاع آتے ہیں جہاں امیروں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔
رپورٹ پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے، راشٹریہ جنتادل (آر جے ڈی) کے سربراہ لالو پرساد یادو نے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ نتیش کمار کو "خود پر شرم آنی چاہیے کیونکہ ان کے مطابق ریاست بہار تعلیم، صحت اور غربت سمیت ہر شعبے میں پچھڑا ہوا ہے۔”
جناب لالو پرساد کا قول اس حد تک تو درست سمجھا جاسکتا ہے کہ بہار تقریبا ہر شعبہ زندگی میں پسماندہ ہے لیکن اس کے لیے محض نتیش کمار کو ہی تنقید کا نشانہ بنانا شاید درست نہیں ہے، کیوںکہ ریاست میں ترقیاتی کام پہلے ہی سے ناگفتہ بہ ہے۔ اور اس میں سیمانچل کا خطہ جہاں غریب ترین ضلع کشن گنج واقع ہے، سب سے زیادہ متاثر رہا ہے۔
کشن گنج ضلع جغرافیائی اعتبار سے کافی اہمیت کا حامل
حالانکہ کشن گنج ایسے خطے میں واقع ہے جو جغرافیائی اعتبار سے کافی اہمیت کا حامل ہے۔ مثلا یہاں ٹرانسپورٹ کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ نیشنل ہائی وے کشن گنج کے پیچ سے گزرتا ہے جو ملک کے اکثر تجارتی علاقوں اور شہروں تک رسائی کو آسان بناتا ہے وہیں ریلوے لائن بھی ایسی ہے کہ شمال مشرقی علاقے کے لیے کشن گنج گیٹ وے کی حیثیت رکھتا ہے۔ باگ ڈوگرا ایئرپورٹ بھی بہت نزدیک ہے۔ اس کے علاوہ کئی عالمگیر شہرت کے حامل سیاحتی مقامات جیسے دارجلنگ، سکیم، مرک اور گیگٹاک وغیرہ بھی 2 سے 3 گھنٹے کے فاصلے میں واقع ہے۔
پیداوار کے لحاظ سے بھی کشن گنج میں دھان، گیہوں، جوٹ سے لے کر چائے تک کی کھیتی ہوتی ہے لیکن کسانوں کی حالت ہمیشہ خراب ہی رہتی ہے۔ سالوں سے اس پر باتیں ہوتی ہیں لیکن کسانوں کی پیداوار کی خاطر خواہ قیمت نہ ملنے کی وجہ سے ان کی حالت بس زندگی گزارنے بھر تک ہے۔
۵ اسمبلی حلقوں میں مجلس اتحاد المسلمین کے امیدواروں کو زبردست کامبیابی
گزشتہ اسمبلی الیکشن میں سیمانچل کے لوگوں کے اندر اپنے پرانے عوامی نمائندوں کے خلاف کافی غصہ نظر آیا جہاں پرانے ممبران اسمبلی کو شکست دے کر ۵ اسمبلی حلقوں میں اسد الدین اویسی کی پارٹی مجلس اتحاد المسلمین کے امیدواروں کو زبردست کامبیابی ملی ہے۔
اسمبلی الیکشن سے قبل میڈیا کی بھی پوری توجہ محض اس بات پر رہی کہ یہاں کے رائے دہندگان کا رجحان اویسی کی پارٹی کی جانب کیوں کر ہوسکتا ہے، اور کیوں یہ اسے متبادل کے طور پر دیکھنے لگے ہیں۔ حالانکہ میڈیا کو اس کی وجوہات پر بھی غور کرنے کی ضرورت تھی جہاں پر کانگریس یا راشٹریہ جنتادل جیسی سیکولرازم کی علمبردار پارٹیوں نے علاقے کی ترقیاتی کاموں پر ادنی سی توجہ دینے کی بھی کوشش نہیں کی۔
کشن گنج ایسا علاقہ ہے جہاں پورے علاقے میں صرف ایک ایسا سرکاری ہسپتال ہے جہاں سو لوگوں سے زیادہ کا علاج ممکن نہیں ہے۔ باقی چند ہسپتال بلاک کی سطح پر ریفرل ہسپتال ہیں جن میں سے اکثر کاغذوں پر ہی چلتے ہیں۔ پورے ضلع میں تقریبا کوئی بھی ڈھنگ کا کالج یا دوسرا سرکاری تعلیمی ادارہ نہیں۔
اب ظاہر ہے غریبی کے جس دہانے پر کشن گنج کو پہنچایا گیا وہ ایک یا دو سال میں تو ہوا نہیں ہے بلکہ اس میں سیاسی پارٹیوں اور عوامی نمائندوں کی مستقل نااہلی کارفرما رہی ہے۔

