بہار میں تبدیلی کا وعدہ: لالو خاندان کی عوام سے ووٹنگ کی اپیل

پرانے چہرے، نئے خواب: بہار اسمبلی انتخابات میں لالو...

کیرالہ میں غربت کے خاتمے پر چین کے سفیر نے دی مبارکباد

کیرالہ کی حکومت نے انتہائی غربت کے خاتمے میں...

اندرا گاندھی کو کانگریس کا خراجِ تحسین: مسز گاندھی کی یادیں تاریخ کو زندہ کرتی ہیں

کانگریس نے ’شکتی استھل‘ پر اندرا گاندھی کی جدوجہد...

جے این یو میں تشدد کا واقعہ: طلبہ گروپوں کے درمیان جھڑپ کی حقیقت

دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو)...

افغانستان سے امریکی فوجی انخلاء ایک غلط اقدام: برطانوی وزیر دفاع

افغانستان سے امریکی فوجی انخلاء کے فیصلے کی نکتہ چینی کرتے ہوئے برطانوی وزیر دفاع بین والیس نے اسے ایک ایسی "غلطی” قرار دیا جس سے طالبان کو مزید آگے بڑھنے کا موقع ملا ہے اور وہ ملک اب تباہی کی طرف بڑھ رہا ہے۔

کابل/لندن: برطانوی وزیر دفاع بین والیس نے افغانستان سے امریکی فوجی انخلاء کے فیصلے کی نکتہ چینی کرتے ہوئے اسے ایک ایسی "غلطی” قرار دیا جس سے طالبان کو مزید آگے بڑھنے کا موقع ملا ہے اور وہ ملک اب تباہی کی طرف بڑھ رہا ہے۔

مسٹر والیس نے اسکائی نیوز ایجنسی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ افغانستان القاعدہ جیسے دہشت گردوں کے لیے ایک پناہ گاہ بن سکتا ہے اور یہ گروہ شاید یہاں قدم جمائے گا جو کہ پوری طرح تشویش کا باعث ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ عالمی برادری کو بھی افغانستان سے امریکہ کے انخلاء کے فیصلے کا انجام بھگتنا پڑے گا۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان کا دوسرا بڑا شہر قندھار اور لشکر گاہ شہر اب بڑی حد تک طالبان کے کنٹرول میں ہے۔

برطانوی وزیر دفاع نے بی بی سی کے ساتھ ایک علیحدہ انٹرویو میں کہا کہ افغانستان خانہ جنگی کی طرف جا رہا ہے اور وہاں غربت اور دہشت گردی میں اضافہ ہوگا۔ تاہم، انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر افغانستان سے ان کے خلاف کوئی دہشت گردانہ سازش رچی گئی تو برطانیہ کو مداخلت کرنے کا حق حاصل ہوگا۔

افغانستان کی موجودہ پیش رفت 2020 میں طالبان کے ساتھ معاہدے سے دستبردار ہونے کا انجام

انہوں نے افغانستان کی موجودہ پیش رفت کو 2020 میں طالبان کے ساتھ معاہدے سے دستبردار ہونے کا انجام قرار دیا اور اس کے لیے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو مورد الزام ٹھہرایا۔

مسٹر والیس کا یہ تبصرہ افغانستان کے تعلق سے دوحہ اجلاس کے شرکاء کے افغان حکومت اور طالبان سے سیاسی حل اور جامع جنگ بندی تک پہنچنے کی کوششیں تیز کرنے کی اپیل کرنے کے ایک دن بعد آیا ہے۔ افغان حکومت اور طالبان کے وفود اور اقوام متحدہ، امریکہ، برطانیہ، یورپی یونین، چین، ازبکستان، قطر، پاکستان، جرمنی، ناروے، تاجکستان، ترکی، ترکمانستان اور ہندوستان کے خصوصی نمائندوں نے اجلاس میں شرکت کی تھی۔ مندوبین نے جمعرات کے روز اجلاس کے اختتام پر ایک مشترکہ بیان جاری کیا ہے۔

بیان کے مطابق تمام مندوبین نے افغان امن مذاکرات کو تیز کرنے اور "دونوں فریقوں کی جانب سے ٹھوس تجویز” پر بات چیت کرنے کی اہمیت پر اتفاق ظاہر کیا گیا ہے۔ انہوں نے اس بات کا بھی اعادہ کیا ہے کہ عالمی برادری افغانستان میں کسی بھی حکومت کو تسلیم نہیں کرے گی جو فوجی تسلط کے ذریعے قائم کی گئی ہو۔

عالمی برادری کے نمائندوں نے افغانستان میں تشدد اور صوبائی دار الحکومتوں پر حملوں کو فوری طور پر بند کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔