ڈاکٹر انصاری نے کہا کہ شیعہ وقف بورڈ کے سابق چیئر مین وسیم رضوی نے عیدالاضحٰی پر قربانی سے متعلقہ اسلامی شریعت مخالف ایک متنازعہ بیان دے کر مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کیا ہے۔
پرتاپ گڑھ: مساجد، صحابہ کرام اور ائمہ دین کا ہی نہیں بلکہ پورے اسلام کا مذاق اڑانے اور مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے والا وسیم رضوی دراصل اپنے کیئے گئے گناہوں پر پردہ ڈالنے و اسلام دشمنان کو خوش کرنے کے لیے اسلامی شریعت پر حملہ آور ہے جو قابل مذمت، مذہبی آزادی کے خلاف ہے۔ پیس پارٹی کے قومی نائب صدر ڈاکٹر عبدالرشید انصاری نے میڈیا کو جاری پریس ریلیز میں مذکورہ خیالات کا اظہار کیا۔
ڈاکٹر انصاری نے کہا کہ شیعہ وقف بورڈ کے سابق چیئر مین وسیم رضوی نے عیدالاضحٰی پر قربانی سے متعلقہ اسلامی شریعت مخالف ایک متنازعہ بیان دے کر مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کیا ہے۔ وسیم رضوی کی انہیں حرکتوں کا نتیجہ ہے کہ وہ دنیا میں ذلیل ہو رہا ہے اور عصمت دری جیسا کیس اس کے خلاف درج ہوا ہے، وہ خارج از اسلام ہے۔ وہ ایک ملعون شخص اور اس کے قول و فعل کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔
وسیم رضوی کی باتوں کو اہمیت دینے سے اجتناب ضروری
اس کی باتوں کو اہمیت دینا اس کو اہمیت دینا ہے، جس سے اجتناب ضروری ہے۔ اس نے اس سے قبل بھی مذہب اسلام کے متعلق بہت ہی گھناونے بیان دیئے، جس سے امت مسلمہ کے جذبات مجروح ہوئے ہیں۔ اس کے بیان سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مذہب اسلام سے اس کا کوئی تعلق نہیں بلکہ وہ ملعون و مجرم ہے اس کو برسرے اقتدار پارٹی کی سرپرستی حاصل ہے۔
وسیم رضوی کو غلط فہمی ہے کہ مسلمانوں کے جذبات مجروح کرنے سے دشمنان اسلام خوش ہو کر اس کی حمایت کر برسرے اقتدار بی جے پی حکومت پر دباو ڈال کر اس کے گلے سے قانون کا پھندہ نکلوا دیں گے۔ لیکن اس کے گناہ اتنے شدید ہیں کہ اب قانون سے بچنا اس کا مشکل ہے۔
وسیم رضوی نے ڈرائیور کی بیوی کے ساتھ عصمت دری کر یہ واضح کر دیا کہ وہ ایک شیطان ہے اور شیطان کا کوئی ایمان، کوئی مذہب نہیں ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ممکن ہے دشمنان اسلام کی پشت پناہی وسیم رضوی کو حاصل ہے، جس کے سبب وہ روز بروز اسلامی شریعت کے خلاف بیان بازی کر رہا ہے۔ ملک کے آئین نے سبھی مذاہب کو آزادی دی ہے۔ اگر کوئی اس آزادی کو غصب کرنے کی کوشش کرتا ہے تو آئین مخالف ہے اور وہ سزا کا حقدار ہے۔
ڈاکٹر انصاری نے حکومت سے وسیم رضوی کے خلاف معاشرے میں منافرت پھیلانے کے لیے سخت قانونی کارروائی کا مطالبہ کیا۔

