بہار اسمبلی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں آج 122 نشستوں پر ووٹنگ

این ڈی اے اور مہاگٹھ بندھن کے درمیان سخت...

مہاراشٹر کے کسانوں کی حالت زار: صرف 6 روپے کا معاوضہ اور حکومت کا مذاق

 مہاراشٹر کے کچھ کسانوں نے حال ہی میں ایک...

بہار میں تبدیلی کا وعدہ: لالو خاندان کی عوام سے ووٹنگ کی اپیل

پرانے چہرے، نئے خواب: بہار اسمبلی انتخابات میں لالو...

کیرالہ میں غربت کے خاتمے پر چین کے سفیر نے دی مبارکباد

کیرالہ کی حکومت نے انتہائی غربت کے خاتمے میں...

بہار اسمبلی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں آج 122 نشستوں پر ووٹنگ

این ڈی اے اور مہاگٹھ بندھن کے درمیان سخت مقابلہ متوقع، سیاسی جماعتوں نے انتخابی حکمت عملیوں میں تیزی لائی

بہار اسمبلی انتخابات کے دوسرے مرحلے کی پولنگ آج 11 ستمبر کو ہونے جا رہی ہے۔ اس مرحلے میں بہار کی 122 نشستوں کے لیے ووٹنگ ہوگی، جہاں این ڈی اے (نیشنل ڈیموکریٹک الائنس) اور مہاگٹھ بندھن (گرینڈ الائنس) کے درمیان سخت مقابلہ متوقع ہے۔ اس بار یہ انتخابات اس لحاظ سے خاص اہمیت کے حامل ہیں کہ مختلف سیاسی جماعتوں نے اپنی اپنی حکمت عملیوں کے ساتھ اپنے حریفوں کے خلاف پوری قوت جھونک دی ہے۔

یہ دوسری مرحلے کی پولنگ بنیادی طور پر بہار کے پانچ اہم علاقوں: سیمانچل، شاہ آباد-مگدھ، اَنگ پردیش، چمپارن اور متھلا خطے کے مدھوبنی پر مرکوز ہے۔ ان تمام علاقوں میں سیکورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں تاکہ ووٹنگ کے دوران کسی قسم کے ناخوشگوار واقعات سے بچا جا سکے۔ موجودہ سیاسی صورتحال میں مہاگٹھ بندھن کی جانب سے ووٹروں کے ایک بڑے طبقے کی حمایت دیکھنے کو مل رہی ہے، جو کہ این ڈی اے کے لیے ایک چیلنج کی صورت اختیار کر رہا ہے۔

بہار کے سیمانچل اور شاہ آباد-مگدھ میں اگر کوئی پارٹی اچھی کارکردگی دکھاتی ہے تو اس کے امکانات حکومت سازی میں بھی بڑھ جائیں گے۔ گزشتہ انتخابات میں اِن دونوں علاقوں میں مہاگٹھ بندھن نے بہتر مظاہرہ کیا تھا، جہاں این ڈی اے کی کارکردگی نسبتاً کمزور رہی۔ اس بار این ڈی اے کو ایک نئی آزمائش کا سامنا ہے کیونکہ تیجسوی یادو کی قیادت میں مہاگٹھ بندھن نے پہلے ہی بڑی تعداد میں ووٹروں کو اپنی جانب مائل کر لیا ہے۔

دوسری طرف، اویسی کی جماعت اس بار سیمانچل کے الیکشن میں اتنی زیادہ اثرانداز نظر نہیں آ رہی، جتنا کہ گزشتہ اسمبلی انتخابات میں۔ اگرچہ پرشانت کشور کی پارٹی، جن سوراج، نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ کچھ بڑا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، مگر زمین پر صورتحال اس کے برعکس نظر آ رہی ہے۔ 2020 کے اسمبلی انتخابات میں سیمانچل میں این ڈی اے نے 12 نشستیں جیتی تھیں، جبکہ اس بار صورتحال قدرے مختلف ہو سکتی ہے۔

آنے والے انتخابات میں اگر مسلم طبقہ مہاگٹھ بندھن کے حق میں متحد ہو جائے تو این ڈی اے کے لیے مشکلات بڑھ جائیں گی۔ اس حوالے سے مختلف سیاسی ماہرین نے اپنا نقطہ نظر پیش کیا ہے کہ اس بار مسلم ووٹرز کی حمایت مہاگٹھ بندھن کو حاصل ہو سکتی ہے، جس کی وجہ سے اویسی کے اثرات کمزور پڑ سکتے ہیں۔

 سیمانچل میں مذہبی صف بندی اور ذات کی بنیاد پر ووٹنگ

سیمیانچل کی 24 اسمبلی نشستوں میں، جن میں کٹیہار، کشن گنج، ارریہ اور پورنیہ شامل ہیں، این ڈی اے کے لیے مذہبی صف بندی ایک بڑا چیلنج بن گئی ہے۔ اگر مہاگٹھ بندھن اپوزیشن کی یکجہتی برقرار رکھنے میں کامیاب رہا تو این ڈی اے کو بھاری نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ گزشتہ انتخابات میں مسلم ووٹروں نے اے آئی ایم آئی ایم کو بھی خاصی تعداد میں ووٹ دیے تھے، جو کہ اب مہاگٹھ بندھن کے حق میں ڈھل سکتے ہیں۔

دوسری جانب، شاہ آباد اور مگدھ کے انتخابات میں بھی صورتحال کافی دلچسپ ہے۔ شاہ آباد اور مگدھ کے علاقوں میں اگر مہاگٹھ بندھن کے امیدوار کامیاب ہوتے ہیں تو اس کا اثر حکومت سازی پر واضح ہو گا۔ یہ علاقے یادو، کرمی، راجپوت اور دلت ووٹروں کی توازن والے علاقہ ہیں جن کی حیثیت انتخابی نتائج پر اہم اثر ڈال سکتی ہے۔

چمپارن اور متھلانچل کی 31 نشستیں بھی کسی بھی اتحاد کے لیے اہم حیثیت رکھتی ہیں۔ ان میں دربھنگہ کی 10 نشستیں شامل ہیں، جہاں ووٹنگ پہلے مرحلے میں ہو چکی ہے۔ اگر این ڈی اے نے ان مقامات پر اچھی کارکردگی دکھائی تو اس کے امکانات بڑھ جائیں گے۔

سیاسی منظرنامہ

بہار کی ان اسمبلی نشستوں میں اگرچہ مہاگٹھ بندھن کی تعداد کم رہی ہے، مگر سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر اپوزیشن کے ووٹ بینک میں اضافہ ہوتا ہے تو ان کا طاقتور ہونا ممکن ہے۔ انتخابات کی اس دوڑ میں اگر ووٹروں کا تھوڑا سا بھی جھکاؤ مہاگٹھ بندھن کی جانب ہوتا ہے تو یہ این ڈی اے کے لیے سخت مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔

یہاں یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ گزشتہ انتخابات میں این ڈی اے اور مہاگٹھ بندھن کے درمیان ووٹ شیئر کا فرق صرف 0.03 فیصد تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی بھی اتحاد کے لیے ووٹوں کا تھوڑا سا بھی الٹ پھیر ان کے مستقبل کا تعین کر سکتا ہے۔

آگے کی راہیں

آنے والے انتخابات میں بہار کی عوام کی رائے کا اثر نہ صرف ریاستی بلکہ قومی سطح پر بھی ہوگا۔ اگر مہاگٹھ بندھن کامیاب ہوتا ہے تو یہ ایک نئی سیاسی فصل کا آغاز ہو سکتا ہے۔ دوسری طرف اگر این ڈی اے اپنی حیثیت برقرار رکھنے میں کامیاب رہا تو یہ ایک مضبوط پیغام بن کر سامنے آئے گا۔

یہ کہنا بھی مشکل ہے کہ بہار کی اسمبلی انتخابات میں کون سی جماعت کامیاب ہوگی، مگر اس وقت بہار کی سیاسی فضا میں جو تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں، وہ آنے والے دنوں میں دلچسپی کا باعث بنیں گی۔ بہار کی عوام کا جوش و خروش اور سیاسی جماعتوں کا جوش دکھاتا ہے کہ یہ انتخابات نہ صرف ایک چیلنج ہیں بلکہ ایک نئی امید بھی لے کر آ رہے ہیں۔

حفاظتی انتظامات اور سیاسی جوش و خروش کے ساتھ، آج کی پولنگ بہار کی تاریخ میں ایک نیا باب کھول سکتی ہے۔ اب یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ عوام کس کے حق میں اپنا فیصلہ سناتی ہے۔