مہاراشٹر کے کسانوں کی حالت زار: صرف 6 روپے کا معاوضہ اور حکومت کا مذاق

 مہاراشٹر کے کچھ کسانوں نے حال ہی میں ایک...

بہار میں تبدیلی کا وعدہ: لالو خاندان کی عوام سے ووٹنگ کی اپیل

پرانے چہرے، نئے خواب: بہار اسمبلی انتخابات میں لالو...

کیرالہ میں غربت کے خاتمے پر چین کے سفیر نے دی مبارکباد

کیرالہ کی حکومت نے انتہائی غربت کے خاتمے میں...

اندرا گاندھی کو کانگریس کا خراجِ تحسین: مسز گاندھی کی یادیں تاریخ کو زندہ کرتی ہیں

کانگریس نے ’شکتی استھل‘ پر اندرا گاندھی کی جدوجہد...

جے این یو میں تشدد کا واقعہ: طلبہ گروپوں کے درمیان جھڑپ کی حقیقت

دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو)...

مہاراشٹر کے کسانوں کی حالت زار: صرف 6 روپے کا معاوضہ اور حکومت کا مذاق

 مہاراشٹر کے کچھ کسانوں نے حال ہی میں ایک ایسی صورتحال کا سامنا کیا جو ان کی زندگی کے لیے انتہائی مشکل اور ناگفتہ بہ ہے۔

کسانوں کے مسائل اور ان کے حل کے لیے مختلف حکومتوں کی جانب سے کچھ بھی کیا جائے نہ جانے کے باوجود مہاراشٹر کے کچھ کسانوں نے حال ہی میں ایک ایسی صورتحال کا سامنا کیا جو ان کی زندگی کے لیے انتہائی مشکل اور ناگفتہ بہ ہے۔ یہ داستان ہے چھترپتی سمبھاجی نگر ضلع کے کسان دگمبر سدھاکر ٹانگڑے کی، جنہیں بھاری بارش اور سیلاب کی وجہ سے اپنی فصل کے نقصان کے بعد حکومت کی طرف سے صرف 6 روپے کا معاوضہ ملا ہے۔ اس خبر نے کسانوں کے درمیان بے چینی اور غم و غصے کی لہر دوڑا دی ہے جبکہ حکومت کے وعدوں پر سوال اٹھنا شروع ہو گئے ہیں۔

کسان دگمبر سدھاکر ٹانگڑے کے مطابق، "یہ رقم اتنی کم ہے کہ ایک کپ چائے کی قیمت بھی نہیں بنتی۔” انہوں نے مزید کہا کہ "یہ کسی مذاق سے کم نہیں، اور حکومت کو اس بابت شرم آنی چاہیے۔” ان کا کہنا تھا کہ ان کے پاس صرف دو ایکڑ زمین ہے، اور انہیں یہ بھی معلوم ہوا کہ ان کے بینک اکاؤنٹ میں محض 6 روپے جمع ہوئے ہیں۔ "ہم قرض معافی کی خواہش رکھتے ہیں، اور ایسی ادائیگی کرنا واقعی میں مذاق ہے۔”

یہ پہلا واقعہ نہیں ہے جب مہاراشٹر کے کسانوں کو اس طرح کی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا ہو۔ اس سے پہلے، اکولا ضلع کے بعض گاؤں کے کسانوں کو بھی بھاری بارشوں کی وجہ سے اپنی فصلیں کھو دینے کے بعد محض 3 یا 21 روپے کا معاوضہ ملا تھا۔ کسانوں نے اس صورتحال کو توہین آمیز قرار دیتے ہوئے احتجاج کا راستہ اختیار کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ رقم ایسے حالات میں انہیں دی گئی ہے جب وہ اپنی زندگی کی بقا کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔

کسانوں کی تحریک اور موجودہ صورتحال

دگمبر سدھاکر ٹانگڑے کی آواز صرف ایک فرد کی نہیں، بلکہ مہاراشٹر کے بہت سے کسانوں کی صدا ہے جو اپنی فصلوں کے نقصانات کے بعد انسانی امداد کے منتظر ہیں۔ آج کی صورتحال میں جہاں کسان بارشوں اور سیلابوں سے متاثر ہوئے ہیں، وہیں انہیں نئے مسائل کا سامنا بھی ہے جیسے کہ کم معاوضہ، قرضوں کی واپسی کا دباؤ اور حکومت کی عدم توجہی۔

مہاراشٹر کی حکومت نے پچھلے مہینے متاثرہ کسانوں کے لیے 31,628 کروڑ روپے کے معاوضے کے پیکیج کا اعلان کیا تھا، جس میں فصل کی تباہی، مٹی کے کٹاؤ، اور دیگر نقصانات کا خیال رکھا گیا تھا۔ تاہم، کسانوں کے لیے ملنے والے اینٹ بڑھتے دکھائی دیتے ہیں، جو کہ حکومت کے اعلان کردہ امدادی پیکج پر سوالیہ نشان لگا رہے ہیں۔

حکومت کے وعدے اور کسانوں کی مایوسی

یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ آخر کار حکومت اپنے وعدوں پر عمل درآمد کیوں نہیں کر سکی؟ دگمبر سدھاکر ٹانگڑے نے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ سابق وزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے نے جب انہوں نے حکومت میں تھے، تو قرض معافی کا اعلان کیا تھا، مگر اس حکومت کے آنے کے بعد نہ تو کسی معافی کا اعلان کیا گیا اور نہ ہی کوئی حقیقی اقدامات نظر آئے۔

کسانوں کی حالت زار کا یہ تماشا صرف مہاراشٹر تک محدود نہیں ہے، بلکہ ملک کے دیگر حصوں میں بھی کسانوں کو تحفظات اور قرضوں کی مشکلات کا سامنا ہے۔ اس وقت، کسانوں کی مایوسی اور بے بسی کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ حکومت انہیں وہ حقوق اور امداد فراہم نہیں کر رہی جن کی ان کے ہاتھوں کی محنت کا حق ہے۔

کیا یہ صرف ایک مذاق ہے؟

دگمبر سدھاکر ٹانگڑے اور دیگر کسانوں کی مایوسی کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ اپنے حقوق کے لیے لڑنے سے دستبردار ہو گئے ہیں۔ ان کا ہنر، ان کی محنت، اور ان کی زمین کے لیے ان کی محبت انہیں حق طلبی کے لیے جدوجہد کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔

کسانوں کا یہ کہنا کہ حکومت نے ان کا مذاق اڑایا ہے، دراصل اس بات کی گہری علامت ہے کہ وہ حکومتی بے حسی کے خلاف کھڑے ہونے کا عزم رکھتے ہیں۔ اس صورتحال میں یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ آیا حکومت اس مسئلے پر کوئی سنجیدہ اقدام کرے گی یا پھر یہ محض ایک اور داستان بن کر رہ جائے گی۔

مہاراشٹر کے کسانوں کے حقوق اور سیاسی صورتحال

یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ مہاراشٹر کی سیاسی صورتحال بھی کسانوں کے مسائل کے گرد گھومتی ہے۔ حالیہ دنوں میں مختلف سیاسی جماعتوں نے اس معاملے پر اپنی سیاست چمکانے کی کوشش کی ہے، جس کا براہ راست اثر کسانوں کی حالت پر پڑ رہا ہے۔ ادھو ٹھاکرے جیسے رہنما اب کسانوں کے درد کو محسوس کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، مگر کیا یہ سب محض سیاسی کھیل ہے یا واقعی میں کچھ مثبت تبدیلی آئے گی؟

مہاراشٹر کے کسانوں کے لئے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ انہیں اپنی حالت زار کا سامنا کرنے کے لئے مزید کن چیلنجز کا سامنا کرنا ہوگا۔ کیا حکومت ان کے حقوق کی حفاظت کرنے میں کامیاب ہوگی یا پھر ان کا درد اسی طرح یونہی جھیلنے کے لئے چھوڑ دیا جائے گا؟ یہ سوالات کسانوں کے دن رات کی محنت کی عکاسی کرتے ہیں اور ان کے مستقبل کا فیصلہ کرنے میں کلیدی کردار ادا کریں گے۔

آگے کی راہ

ماضی کی مشکلات اور حالیہ حالات کے درمیان، مہاراشٹر کے کسانوں کو جو چیلنجز درپیش ہیں وہ صرف مالی نہیں، بلکہ جذباتی بھی ہیں۔ کسانوں کی اس حالت کا مقابلہ کرنے کے لئے حکومت کو نہ صرف ہمدردی دکھانی ہوگی بلکہ ان کی حقیقی مشکلات کو سمجھ کر انہیں حل بھی کرنا ہوگا۔

کسانوں کی جدوجہد اور ان کی آواز کو سننا وقت کی ضرورت ہے، تاکہ ان کے مسائل کو حل کر کے انہیں بہتر زندگی کی طرف لوٹا جا سکے۔ اگر حکومت نے اس معاملے میں سنجیدگی سے اقدامات کئے تو یہ نہ صرف کسانوں کی حالت کو بہتر بنائے گا بلکہ ملک کی معیشت کو بھی مستحکم کرے گا۔

مہاراشٹر کے کسانوں کی یہ جنگ صرف ان کی نہیں بلکہ ہر اُس کسان کی ہے جو اپنے حقوق کے لئے جدوجہد کر رہا ہے۔ اگرچہ ان کے راستے میں مشکلات ہیں، لیکن ان کا حوصلہ انہیں کبھی بھی ہار تسلیم کرنے پر مجبور نہیں کرے گا۔ اس وقت یہ ضروری ہے کہ حکومت ان کی باتوں کو سن کر انہیں جوابدہ بنائے اور ان کے مسائل کے حل کے لئے عملی اقدامات کرے۔