مسلم پرسنل لا بورڈ کی تشویش، جمعیۃ کا اطمینان اور کانگریس کی سیاسی کامیابی – مسلم قیادت اور اپوزیشن کہاں کھڑی ہے؟
وقف ایکٹ پر سپریم کورٹ نے جو فیصلہ سنایا، اس میں بعض دفعات کو محفوظ رکھا ہے
سپریم کورٹ نے وقف ایکٹ سے متعلق اہم فیصلہ سناتے ہوئے کچھ مخصوص دفعات پر گزشتہ کل پیر کے روز روک لگا دی ہے، لیکن پورے قانون پر کسی قسم کی پابندی عائد کرنے سے انکار کیا ہے۔ اس فیصلے کے تحت عدالت نے واضح کیا ہے کہ وقف بورڈ میں غیر مسلم اراکین کی تعداد تین سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے اور جہاں تک ممکن ہو، بورڈ کا چیف ایگزیکٹو آفیسر بھی مسلم ہونا چاہیے۔
یہ فیصلہ اس وقت آیا جب مختلف درخواست گزاروں کی جانب سے وقف ایکٹ کی دفعات کو چیلنج کیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس، جے ایس کیہر اور جسٹس اے جی مسیح کی بنچ نے یہ واضح کیا کہ انہوں نے قانون کے مختلف پہلوؤں کا بغور جائزہ لیا ہے اور مکمل قانون پر روک لگانے کا کوئی جواز نظر نہیں آیا۔
وقف قانون میں کیا تبدیلیاں کی گئی ہیں؟
سپریم کورٹ نے خاص طور پر اس بات کا ذکر کیا کہ وقف ایکٹ-2025 کی ایک شق کو معطل کر دیا گیا ہے، جس کے تحت کسی فرد کے لیے وقف قائم کرنے کے لیے یہ شرط رکھی گئی تھی کہ وہ پانچ سال تک اسلام کا پیروکار ہو۔ یہ فیصلہ اس بنیاد پر کیا گیا ہے کہ اس بات کی تصدیق کرنے کا کوئی نظام موجود نہیں کہ آیا کوئی شخص واقعی پانچ سال سے مسلم ہے یا نہیں۔
یہ بات اہم ہے کہ سپریم کورٹ نے اس قانونی ماتحت میں کچھ دیگر دفعات کو بھی محفوظ رکھنے کی ضرورت محسوس کی ہے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ عدالت قانون کے بعض پہلوؤں کی جانچ پڑتال کریں گی تاکہ یہ طے کیا جا سکے کہ اصل قانون کی روح کے مطابق مطابق ہیں یا نہیں۔
عرضی گزار کون تھے؟
سپریم کورٹ میں وقف ایکٹ کے خلاف دائر کی گئی درخواستوں میں مختلف سیاسی و مذہبی شخصیات شامل تھیں، جن میں اے آئی ایم آئی ایم کے سربراہ اسد الدین اویسی، عآپ کے امانت اللہ خان، جمعیۃ العلماء ہند کے صدر ارشد مدنی، کیرالہ جمعیۃ العلماء، انجم قادری، طیب خان سلمانی، اور ٹی ایم سی کی ایم پی مہوا موئترا شامل تھے۔ ان سیاستدانوں نے اس قانون کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ یہ حکومت کی جانب سے مسلمانوں کے حقوق پر قدغن لگانے کی کوشش ہے۔
عدالت کا فیصلہ: قانونی حیثیت اور اہمیت
سپریم کورٹ کی جانب سے دیے گئے اس فیصلے کے بعد اب قانونی ماہرین اور سیاستدانوں کا کہنا ہے کہ حکومت کو چاہئے کہ وہ اس حوالے سے مزید وضاحت فراہم کرے تاکہ لوگوں میں بھربھری کی کیفیت ختم ہو سکے۔ چیف جسٹس جے ایس کیہر نے اس بات پر زور دیا کہ قانون کی آئینی حیثیت کو مد نظر رکھتے ہوئے، کسی بھی قسم کی پابندی عائد کرنے سے پہلے درست دلائل کا ہونا ضروری ہے۔
اب جب کہ عدالت نے کچھ مخصوص دفعات پر روک لگا دی ہے، یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ حکومت ان کے خلاف مزید اقدام کرتی ہے یا نہیں۔ قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ یہ فیصلہ وقف بورڈ کی ساخت اور کارکردگی پر ایک اہم اثر ڈالے گا۔
اس عبوری فیصلے پر مسلم تنظیموں، سیاسی رہنماؤں اور سول سوسائٹی کی جانب سے ملا جلا ردِعمل سامنے آیا ہے۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ
مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سیکریٹری مولانا فضل الرحیم مجددی نے کہا کہ اگرچہ عدالت نے کچھ دفعات پر روک لگائی ہے لیکن وقف ترمیمی قانون کو کالعدم قرار دینے سے انکار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا خاص مطالبہ خصوصاً ’’وقف بائی یوزر‘‘ میں سپریم کورٹ نے مداخلت سے انکار کردیا ہے۔ مولانا نے مزید کہا کہ بورڈ سپریم کورٹ کے اس عبوری فیصلے کا جائزہ لے رہا ہے اور وکلاء سے مشورہ کے بعد تفصیلی بیان جاری کرے گا اور آئندہ لائحہ عمل سے آگاہ کرے گا۔ انہوں نے اس معاملے میں جدوجہد جاری رکھنے کا اعلان کیا۔
جمعیۃ علماء ہند
جمعیۃ علماء، جو اس قانون کو چیلنج کرنے والوں میں شامل ہے، نے فیصلے پر اطمینان کا اظہار کیا۔ جمعیۃ کے صدر مولانا ارشد مدنی نے ایک پوسٹ میں لکھا کہ ہم نے وقف قانون کی تین اہم متنازع دفعات پر ملنے والی عبوری راحت کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس عبوری ریلیف نے ہماری امید کو یقین میں بدل دیا ہے اور ثابت کیا ہے کہ انصاف ابھی زندہ ہے۔
کانگریس پارٹی
کانگریس کے سینئر لیڈر جے رام رمیش نے کہا کہ سپریم کورٹ کا حکم ان سیاسی جماعتوں کی جیت ہے جنہوں نے پارلیمنٹ میں اس کی مخالفت کی تھی اور ان اراکین کی بھی جیت ہے جنہوں نے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی میں اپنی اختلافی رائے تفصیل سے پیش کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ اس فیصلے سے واضح ہوگیا ہے کہ اگرچہ جے پی سی میں اختلافی نوٹ مسترد کردیے گئے تھے، لیکن آج وہ تمام اعتراضات درست ثابت ہوگئے ہیں۔ جے رام رمیش نے مزید کہا کہ اپوزیشن کے وکلاء نے عدالت میں دلیل دی تھی کہ اس قانون کے ذریعے ایسا ڈھانچہ بنایا جا رہا ہے جس سے کوئی بھی وقف املاک کی حیثیت کو چیلنج کر سکتا ہے، جس کے نتیجے میں ان املاک کا مستقبل غیر یقینی رہے گا۔ ان کے مطابق اس قانون کو نافذ کرنے کا مقصد ووٹروں کو متاثر کرنا اور تنازع کو زندہ رکھنا معلوم ہوتا ہے۔
آنے والے دنوں میں کیا ہو سکتا ہے؟
اس فیصلے کی روشنی میں، اب یہ دیکھا جائے گا کہ حکومت اس معاملے میں کیا اقدامات کرتی ہے، اور کیا وہ عدالت کی جانب سے دی گئی ہدایات کے مطابق قانون میں ترمیم کرتی ہے یا نہیں۔ یہ صورتحال عوام کی نظر میں ایک بڑی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ یہ مسلمانوں کے حقوق اور وقف کے نظام کی بنیادوں پر براہ راست اثر ڈال سکتی ہے۔
اس کے ساتھ ہی، سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ آئندہ کے حالات میں قانونی اور انتظامی معاملات میں شفافیت اور انصاف کی ضرورت ہے۔
اس معاملے کی وسعت اور متوقع نتائج
یہ فیصلہ صرف ایک قانونی جائزہ نہیں ہے بلکہ اس کی وسعت اور اثرات مسلم کمیونٹی میں بھی محسوس کیے جائیں گے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے باعث مسلمانوں کی سماجی اور مذہبی حیثیت کے ابھار میں ایک نئی بحث کا آغاز ہو سکتا ہے۔ مختلف مسلم جماعتیں اس حوالے سے اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے ایک بار پھر آواز اٹھا سکتی ہیں۔
اس مقدمے کی سماعت کے دوران یہ بھی واضح ہوا ہے کہ مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کی ضرورت پہلے سے بڑھ گئی ہے۔ قانونی ماہرین کا ماننا ہے کہ اس فیصلے کے بعد حکومت کو چاہئے کہ وہ ایک جامع اور شفاف قانون سازی کی جانب قدم اٹھائے تاکہ عوام کے حقوق کا تحفظ ہو سکے۔
آنے والے چیلنجز اور مواقع
آنے والے دنوں میں یہ دیکھنا دلچسپ ہوگی کہ حکومت اور دیگر ادارے اس فیصلے سے کس طرح آگے بڑھتے ہیں اور مسلم کمیونٹی کے حقوق کا تحفظ کیسے کیا جاتا ہے۔ ان چیلنجز کے ساتھ ساتھ، اس فیصلے کے نتیجے میں ممکنہ مواقع کو بھی سمجھنا ضروری ہے تاکہ ترقی کی راہوں کا تعین کیا جا سکے۔