ہندوستان کی پارلیمنٹ میں ‘وَن نیشن، وَن الیکشن’ بل کے پاس ہونے کے بعد، جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی (جے پی سی) میں اراکین کی تعداد میں اضافہ کیا گیا ہے۔ پہلے یہ تعداد 31 اراکین پر مشتمل تھی، لیکن اب اس میں 8 نئے اراکین کی شمولیت کے بعد یہ تعداد 39 ہو گئی ہے۔ یہ فیصلہ بعض اراکین پارلیمنٹ کی درخواست پر کیا گیا ہے تاکہ بل کا جامع جائزہ لیا جا سکے۔
بل کی منظوریدہ تفصیلات:
یہ بل لوک سبھا میں 17 دسمبر 2023 کو پیش کیا گیا تھا اور اس دوران ووٹوں کی تقسیم کے بعد 129ویں آئینی ترمیمی بل کو دوبارہ قائم کیا گیا۔ اس بل کی منظوری کے حق میں 263 ووٹ پڑے جبکہ 198 ووٹ اس کے خلاف دیے گئے تھے۔ اب یہ بل جے پی سی کے پاس جا چکا ہے، جہاں اس کے بارے میں مزید غور و خوض کیا جائے گا۔
جے پی سی میں شامل اراکین کی تفصیل یہ ہے: لوک سبھا سے 27 اراکین نامزد کیے گئے ہیں جبکہ راجیہ سبھا سے 12 اراکین کو شامل کیا گیا ہے۔ minister قانون، ارجن رام میگھوال نے راجیہ سبھا میں 12 اراکین کی شمولیت کی تجویز رکھی، جسے ایوان بالا نے منظوری دی۔
جے پی سی اراکین کی تفصیلات:
جے پی سی میں شامل اراکین کی تفصیلات کے مطابق، بی جے پی سے گھنشیام تیواری، بھونیشور کلیتا سمیت دیگر اہم اراکین شامل کیے گئے ہیں۔ جب کہ کانگریس سے رندیپ سنگھ سرجے والا اور مکل واسنک بھی اس کمیٹی کا حصہ ہیں۔ اس کے علاوہ، دیگر جماعتوں جیسے ترنمول کانگریس، ڈی ایم کے اور عآپ کے اراکین بھی شامل کیے گئے ہیں۔
اختیارات اور آئینی تبدیلیاں:
متوقع ہے کہ یہ بل آئندہ انتخابات کے نظام کو ایک ملک کے اندر ایک ہی وقت میں منظم کرنے کی کوشش ہے، جس سے سیاسی میدان میں بڑی تبدیلیاں آ سکتی ہیں۔ اس بل کا مقصد ہندوستان میں انتخابات کی شدت کو کم کرنا اور انتخابی عمل کے نظام کو مستحکم کرنا ہے۔
جے پی سی کو یہ ہدایت دی گئی ہے کہ وہ آئندہ بجٹ اجلاس کے آخری ہفتے کے پہلے دن تک اپنی رپورٹ پیش کرے۔
تخلیق کا مقصد:
‘وَن نیشن، وَن الیکشن’ کی تجویز کا مقصد یہ ہے کہ ملک کی مختلف ریاستوں میں انتخابات ایک ہی وقت میں ہوں جس سے سیاسی جماعتوں کی انتخابی سیاست میں سہولت ہو گی اور عوامی وسائل کی بچت کی جا سکے گی۔
اس تجویز میں شامل کچھ اہم وضاحتیں یہ ہیں کہ اس سے حکومت کو عوامی خدمات کو بہتر طور پر فراہم کرنے کا موقع ملے گا اور سیاسی جماعتوں کو کامیابی کے لیے زیادہ محنت کرنی پڑے گی۔
یقیناً، یہ باریک بینی سے مشاہدہ کرنے کی ضرورت ہے کہ آئندہ ادوار میں اس بل کی نوعیت اور اثرات کیا ہو سکتے ہیں۔
جب ہم اس کے ممکنہ اثرات کی بات کرتے ہیں تو یہ تصور کیا جا سکتا ہے کہ اگر یہ بل کامیابی سے نافذ ہو جاتا ہے تو ملک کی سیاست میں ایک نیا دور شروع ہو سکتا ہے۔
جیسے جیسے یہ بحث آگے بڑھ رہی ہے، یہ سوالات بھی اٹھ رہے ہیں کہ آیا یہ تبدیلیاں ہر سیاسی جماعت کے لیے فائدہ مند ثابت ہوں گی یا نہیں۔
یہ ایک نازک عمل ہے جو نہ صرف حکومت کی کارکردگی پر اثر انداز ہو گا بلکہ عام عوام کی زندگیوں پر بھی گہرے اثرات مرتب کر سکتا ہے۔
آگے کی راہیں:
اب دیکھنا یہ ہے کہ جے پی سی کی رپورٹ کے بعد کیا یہ بل نافذ العمل ہوگا یا اس میں مزید ترمیم کی ضرورت پیش آئے گی۔ عوامی سوچ اور سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کی رائے اس معاملے میں اہم ہوگی۔
ہمیں امید ہے کہ مستقبل میں یہ بل ایک مثبت تبدیلی کا ذریعہ بن سکے گا اور ہندوستان کی معیشت اور سیاست کو مزید مضبوط کرے گا۔

