نئی دہلی: تحریک عدم اعتماد کے نوٹس کی کہانی
پارلیمان کا سرمائی اجلاس اس وقت ہنگامہ خیز صورتحال کا سامنا کر رہا ہے۔ جہاں ایک طرف اپوزیشن اراکین پارلیمنٹ کا کہنا ہے کہ ان کی باتیں نہیں سنی جا رہی ہیں، وہیں دوسری طرف راجیہ سبھا کے چیئرمین جگدیپ دھنکھڑ کے خلاف بھی جانبداری کے الزامات عائد کیے جا رہے ہیں۔ حال ہی میں، اپوزیشن نے اپنائی تحریک عدم اعتماد کا نوٹس راجیہ سبھا سکریٹریٹ میں جمع کرایا، مگر اب اطلاعات ہیں کہ یہ نوٹس خارج کر دیا گیا ہے۔ یہ پیش رفت پارلیمانی نظام کے لیے اہمیت کی حامل ہے کیونکہ پاکستان کی 72 سالہ جمہوری تاریخ میں راجیہ سبھا کے چیئرمین کے خلاف یہ پہلا موقع تھا جب عدم اعتماد کی تحریک پیش کی گئی۔
تحریک عدم اعتماد کا پس منظر
میڈیا کی رپورٹس کے مطابق راجیہ سبھا کے ڈپٹی چیئرمین ہری ونش نے اپوزیشن کی جانب سے پیش کردہ تحریک عدم اعتماد کے نوٹس کو خارج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ نوٹس اپوزیشن کے 60 اراکین پارلیمنٹ کی طرف سے دستخط شدہ تھا اور اسے آرٹیکل 67 بی کے تحت پی سی مودی کو سونپا گیا تھا۔ لیکن اس نوٹس کے خارج ہونے کی وجوہات میں یہ بات شامل ہے کہ تحریک عدم اعتماد کے لیے کم از کم 14 دن قبل نوٹس دینا ضروری ہوتا ہے، جبکہ پارلیمنٹ کا رواں سرمائی اجلاس 20 دسمبر تک جاری رہے گا۔ یہ قانونی شرط کسی بھی تحریک کو پیش کرنے کے لیے بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔
بہت سے ماہرین اس صورتحال کو جمہوری عمل کی کمزوری قرار دے رہے ہیں، کیونکہ اپوزیشن کے اراکین نے اس نوٹس کو پیش کرنے کے لیے آخر کار ایک متحدہ اقدام کیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ یہ ان کی مجبوری کی علامت ہے کہ وہ اس طرح کے اقدام اٹھانے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ ہری ونش نے بتایا کہ یہ نوٹس نہ صرف بے معنی ہے بلکہ اس کے ذریعے نائب صدر جیسے اعلیٰ آئینی عہدے کے وقار کو بھی مجروح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
کیسے ہوا یہ سب؟
نائب چیئرمین ہری ونش نے کہا کہ اپوزیشن کا یہ نوٹس بے بنیاد اور غیر سنجیدہ تھا، جس کا مقصد محض شہرت حاصل کرنا تھا۔ انھوں نے مزید کہا کہ یہ نوٹس جلدبازی میں تیار کیا گیا اور اس میں کئی خامیاں موجود تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کے نوٹس کی پیشی سے نہ صرف ایوان کی کارروائی متاثر ہوتی ہے، بلکہ یہ جمہوری روایات کے خلاف بھی ہے۔ ہری ونش کے اس بیان سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ وہ اس تحریک کو کسی بھی صورت میں سنجیدہ لینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
ایوان میں ہنگامہ خیز صورتحال
سردیوں کے اس سرمائی اجلاس میں، جہاں حکومت اور اپوزیشن دونوں کے درمیان تناؤ بڑھتا جا رہا ہے، اس تحریک عدم اعتماد کے نوٹس نے ایک نیا موڑ لیا ہے۔ اپوزیشن کے اراکین نے حکومت پر زور دیا کہ وہ ان کی باتوں کو سنے، لیکن حکومت کی طرف سے کوئی واضح جواب نہیں دیا جا رہا ہے۔ اس معاملے نے ملکی سیاست میں مزید کشیدگی پیدا کر دی ہے، اور باخبر حلقوں میں یہ بحث جاری ہے کہ آیا اپوزیشن کی اس تحریک کے پیچھے حقیقی انگیجمنٹ ہے یا یہ صرف سیاسی شہرت کا کھیل ہے۔
اس صورتحال کے ممکنہ اثرات
راقم نے موجودہ سیاسی صورتحال کی روشنی میں کئی ماہرین سے بات کی، جنہوں نے بتایا کہ اس طرح کے اقدامات کو جمہوری عمل کی کمزوری کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ اپوزیشن کے اس اقدام کا بنیادی مقصد حکومت پر دباؤ بڑھانا ہے تاکہ وہ ان کی باتوں کو سنے اور ملکی مسائل پر توجہ دے۔ مگر موجودہ صورتحال میں، جب کہ حکومت کا موقف مستحکم نظر آ رہا ہے، اپوزیشن کو اپنی حکمت عملی میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔
اس حوالے سے اپوزیشن اراکین نے بھی اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے کہ اگر حکومت ان کے مطالبات کو نظر انداز کرتی رہی تو انہیں مزید سخت اقدامات اٹھانے پر مجبور ہونا پڑے گا۔
مستقبل میں کیا ہو سکتا ہے؟
آنے والے دنوں میں سیاسی منظر نامے کی تبدیلی کے امکانات موجود ہیں۔ اگر اپوزیشن نے اپنی اس تحریک کو مؤثر بنانے کے لیے نئے طریقے اپنائے تو ممکن ہے کہ وہ حکومت کے خلاف مزید سخت موقف اختیار کرے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ تحریک دراصل ایک بڑی سیاسی تبدیلی کا باعث بن سکتی ہے، بشرطیکہ اپوزیشن کے اراکین اپنی صفوں میں اتحاد قائم رکھنے میں کامیاب ہوں۔
آگے بڑھتے ہوئے، راجیہ سبھا کی کارروائیاں
راجیہ سبھا کے چیئرمین جگدیپ دھنکھڑ کا کہنا ہے کہ وہ ایوان کی کارکردگی بڑھانے کے لیے پرعزم ہیں، اور وہ اپوزیشن کے اراکین کی باتوں کو سننے کے لیے بھی تیار ہیں۔ مگر اسی دوران، اپوزیشن کو یہ سمجھنا ہوگا کہ اپنی صفوں میں اتحاد رکھنا اور واضح مطالبات پیش کرنا کتنا اہم ہے۔

