بہار میں تبدیلی کا وعدہ: لالو خاندان کی عوام سے ووٹنگ کی اپیل

پرانے چہرے، نئے خواب: بہار اسمبلی انتخابات میں لالو...

کیرالہ میں غربت کے خاتمے پر چین کے سفیر نے دی مبارکباد

کیرالہ کی حکومت نے انتہائی غربت کے خاتمے میں...

اندرا گاندھی کو کانگریس کا خراجِ تحسین: مسز گاندھی کی یادیں تاریخ کو زندہ کرتی ہیں

کانگریس نے ’شکتی استھل‘ پر اندرا گاندھی کی جدوجہد...

جے این یو میں تشدد کا واقعہ: طلبہ گروپوں کے درمیان جھڑپ کی حقیقت

دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو)...

ٹی ڈی پی رہنما نے حد بندی کی مخالفت کی، جنوبی ریاستوں کے مفادات کو خطرہ قرار دیا

آبادی کی بنیاد پر حد بندی: کیا جنوبی ریاستیں نقصان اٹھائیں گی؟

آندھرا پردیش کی سیاسی سٹیج پر ایک نئی بحث نے جنم لیا ہے جب ٹی ڈی پی (تیلگو دیسیم پارٹی) نے حد بندی کے مسئلے پر اپنی تشویش کا اظہار کیا۔ ٹی ڈی پی کے رکن پارلیمنٹ شری کرشن دیورائلو نے پارلیمنٹ میں اس اہم مسئلے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ حد بندی کا فیصلہ جنوبی ریاستوں کی سیاسی سطح پر اثرانداز ہو سکتا ہے۔ یہ معاملہ خاص طور پر اس وقت زیادہ اہمیت اختیار کر گیا جب مرکزی حکومت نے آبادی کی بنیاد پر نئی حد بندی کا اعلان کیا ہے۔

شری کرشن دیورائلو نے خبردار کیا ہے کہ اگر یہ حد بندی کی گئی تو جنوبی ریاستوں کو ناقابل برداشت نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ یہ اقدام ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب جنوبی ریاستوں کی آبادی میں کمی واقع ہو رہی ہے، جبکہ شمالی ریاستوں کے سیاسی فوائد میں اضافہ ہوگا۔ دیورائلو نے واضح کیا کہ اگر اس حد بندی کو نافذ کیا گیا تو ریاستوں جیسے یوپی، بہار، ایم پی اور راجستھان کی سیٹیں 169 سے بڑھ کر 324 ہو جائیں گی۔ جبکہ آندھرا پردیش، تلنگانہ، تمل نادو، کیرالہ اور کرناٹک کی سیٹیں 129 سے صرف 164 ہوں گی۔

کیا وفاقیت کے اصولوں کی خلاف ورزی ہو رہی ہے؟

ٹی ڈی پی رہنما نے وفاقیت کے اصولوں کی خلاف ورزی کا بھی ذکر کیا۔ انہوں نے تجویز دیا کہ جن ریاستوں کی آبادی میں کمی واقع ہوئی ہے، انہیں بھی حد بندی کا فائدہ دینا چاہیے۔ یہ ایک اہم نکتہ ہے جو کہ کسی بھی وفاقی نظام کے لئے اہمیت رکھتا ہے۔ شری کرشن دیورائلو نے اس امر پر زور دیا کہ ریاستی اسمبلیوں کے ذریعہ پاس بلوں کی منظوری کے لئے گورنروں کے لئے وقت کی حد طے کی جانی چاہیے، تاکہ وفاقی نظام میں شفافیت اور تیزی کو یقینی بنایا جا سکے۔

ٹی ڈی پی کے رکن پارلیمنٹ نے مزید کہا کہ مرکزی حکومت کو اس حد بندی کے فیصلے پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ حالانکہ اس معاملے پر بی جے پی کا اب تک کوئی مستند ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ این ڈی اے حکومت میں ٹی ڈی پی کا ایک اہم کردار ہے اور اس وجہ سے بی جے پی کے لئے ٹی ڈی پی کو کسی بھی طریقے سے نشانہ بنانا آسان نہیں ہوگا۔

آنے والے لوک سبھا انتخابات پر اثرات

یاد رہے کہ 2029 میں ہونے والے لوک سبھا انتخابات کے لئے یہ حد بندی کا معاملہ اور بھی اہم بن جاتا ہے۔ حد بندی قانون کے مطابق، 2026 تک لوک سبھا کی سیٹیں نہیں بڑھائی جا سکتیں، جبکہ اس کے بعد مردم شماری کی بنیاد پر یہ عمل شروع ہو سکتا ہے۔ موجودہ صورتحال کے مطابق، 2027 کی مردم شماری کے بعد نئی حد بندی کی امید کی جا رہی ہے۔

یہ صورتحال اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ اگر حد بندی کی جاتی ہے تو یہ نہ صرف جنوبی ریاستوں کی سیاسی طاقت کو کمزور کرے گی بلکہ وفاقیت کے اصولوں کو بھی چیلنج کرے گی۔

مقامی سیاست میں ممکنہ تبدیلیاں

یہ بحث محض آئینی اور قانونی نہیں بلکہ اس کا براہ راست اثر آندھرا پردیش کی مقامی سیاست پر بھی پڑے گا۔ اگر جنوبی ریاستوں کو حد بندی کے معاملے میں نظر انداز کیا جاتا ہے تو اس کے نتیجے میں عوامی جذبات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ دیورائلو نے اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ عوامی سطح پر اس معاملے کی حساسیت کو سمجھنا ضروری ہے۔

ایسی صورتحال میں جہاں ٹی ڈی پی اور دیگر مقامی جماعتیں اس معاملے پر یکجا ہو کر مرکزی حکومت کے خلاف آواز اٹھائیں گی، وہاں یہ ممکن ہے کہ مستقبل کی سیاست میں تبدیلیاں آئیں۔

یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ حکومت اس معاملے پر اپنی پالیسی کو کس طرح ترتیب دیتی ہے اور کیا اس پر عوامی رائے کو مدنظر رکھا جاتا ہے یا نہیں۔