مہاراشٹر کے کسانوں کی حالت زار: صرف 6 روپے کا معاوضہ اور حکومت کا مذاق

 مہاراشٹر کے کچھ کسانوں نے حال ہی میں ایک...

بہار میں تبدیلی کا وعدہ: لالو خاندان کی عوام سے ووٹنگ کی اپیل

پرانے چہرے، نئے خواب: بہار اسمبلی انتخابات میں لالو...

کیرالہ میں غربت کے خاتمے پر چین کے سفیر نے دی مبارکباد

کیرالہ کی حکومت نے انتہائی غربت کے خاتمے میں...

اندرا گاندھی کو کانگریس کا خراجِ تحسین: مسز گاندھی کی یادیں تاریخ کو زندہ کرتی ہیں

کانگریس نے ’شکتی استھل‘ پر اندرا گاندھی کی جدوجہد...

جے این یو میں تشدد کا واقعہ: طلبہ گروپوں کے درمیان جھڑپ کی حقیقت

دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو)...

لوک سبھا انتخاب سے قبل اپوزیشن اتحاد ’اِنڈیا‘ کو ملی خوشخبری، مولانا بدرالدین اجمل نے بلاشرط حمایت کا کیا اعلان

دیوبند: اے آئی یو ڈی ایف (آل انڈیا یونائٹیڈ ڈیموکریٹک فرنٹ) کے سپریمو اور رکن پارلیمان مولانا بدرالدین اجمل نے آج اپنے ایک بیان میں کہا کہ ’’بی جے پی کو شکت دینا اور اقتدار سے بے دخل کرنا نہایت ضروری اور قوم و ملت کے مفاد میں ہے۔ آئندہ پارلیمانی انتخابات کے موقع پر ہماری پارٹی غیر مشروط طور پر ’انڈیا‘ اتحاد کا ساتھ دے گی۔‘‘ اتنا ہی نہیں، انہوں نے یہ امید بھی ظاہر کی کہ مستقبل قریب میں اے آئی یو ڈی ایف ’انڈیا اتحاد‘ کا حصہ ہوگی۔

مولانا بدرالدین اجمل کا کہنا ہے کہ موجودہ مرکزی حکومت اپنی ایجینسیوں کے ذریعہ حراساں کر کے حزب اختلاف کو خاموش رکھنا چاہتی ہے۔ لیکن بی جے پی کی بدحواسی اور سراسیمگی اس بات کا پتہ دیتی ہے کہ اب اس کے جانے کا وقت قریب آ گیا ہے۔ جب ملک کے حالات کے بدلیں گے تو اتر پردیش کے حالات بھی از خود بدل جائیں گے۔ ہندوستانی عوام ذہن بنا چکی ہے کہ اب اس ملک کو نفرت کی سیاست سے پاک کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ’انڈیا‘ کی فتحیابی کے امکانات روشن ہونے لگے ہیں۔

مولانا بدرالدین اجمل نے اپنے مذکورہ بالا خیالات دیوبند میں صحافیوں سے گفتگو کے دوران ظاہر کیے۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ یہ ضروری نہیں کہ آئندہ حکومت کی ضمام قیادت راہل گاندھی کے ہاتھوں میں ہو، کیونکہ حتمی طور پر ابھی کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ ملک کے حالات بڑے تشویشناک ہیں۔ جو کچھ نوح اور منی پور میں ہوا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ مظفرنگر میں طالب علم کے ساتھ جو نفرت انگیز معاملہ پیش آیا وہ نہایت قابل مذمت اور باعث افسوس ہے۔ لیکن ایک مظفرنگر ہی نہیں ہے، بلکہ پورا جسم زخمی ہے، کس کس زخم کا تذکرہ کیا جائے۔

مولانا اجمل نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ فی الحال ملک میں اقلیتی فرقہ کے حالات نہایت خراب اور ناگفتہ بہ ہیں۔ اس پر آشوب دور میں ہر قدم پھونک پھونک کر اٹھانا پڑ رہا ہے۔ ہمیں اس بات کا اعتراف کرنا ہوگا کہ ہم اس ترقیاتی دور میں برادران وطن سے بہت پیچھے ہیں، تعلیمی میدان میں پچھڑ جانے کی وجہ سے ہم بہت پیچھے رہ گئے ہمیں۔ اگر بہتر مستقبل کے بارے میں کچھ کرنا ہے تو بس زیور علم سے خود کو آراستہ کرنے کے لیے جدوجہد کرنا ہوگی۔

قابل ذکر ہے کہ مولانا بدرالدین اجمل آج دیوبند آئے ہوئے تھے اور مجلس شوریٰ کے اختتام کے بعد وہ اپنی رہائش گاہ پر اخباری نمائندوں سے گفتگو کررہے تھے۔ صوبہ آسام کے حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہاں کی ریاستی حکومت سے عوام پریشان ہے کیونکہ حکومت کوئی بھی فلاحی اور تعمیراتی کام نہیں کر پا رہی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جو لوگ ان (بدرالدین) پر ریاستی حکومت سے پس پردہ ساز باز کی الزام تراشی کر رہے ہیں، دراصل وہ خود ہی اس ناپاک عمل میں مبتلا ہیں۔