موبائل فون میں ’سنچار ساتھی‘ ایپ لازمی قرار، سرکاری احکام پر حزب اختلاف برہم

سائبر سیکیورٹی کا سرکاری دعویٰ یا ریاستی نگرانی کا...

ہند-نیپال سرحد سے 6 ماہ میں 100 خواتین غائب: انسانی اسمگلنگ کا شبہ

ہند-نیپال سرحد سے گزشتہ 6 ماہ میں تقریباً 100...

دہلی ہائی کورٹ کا طلاق کا فیصلہ: شادی میں اعتماد کی اہمیت پر زور

دہلی ہائی کورٹ نے طلاق کے مقدمے میں فیصلہ...

الٹی ہو گئیں سب تدبیریں: بہار کے انتخابی نتائج کا سیاسی متن و حاشیہ

بہار اسمبلی انتخابات 2025، این ڈی اے کی غیر...

دہلی دھماکے کے بعد سیکیورٹی کے سخت انتظامات، شہریوں کے تعاون کی ضرورت

دہلی دھماکے کے بعد شہر بھر میں سیکیورٹی ہائی...

دہلی ہائی کورٹ کا طلاق کا فیصلہ: شادی میں اعتماد کی اہمیت پر زور

دہلی ہائی کورٹ نے طلاق کے مقدمے میں فیصلہ سناتے ہوئے شادی کے رشتے میں اعتماد کی بنیادی اہمیت کو اجاگر کیا۔

طلاق کے فیصلے میں بیوی کی شکایت کی بنیاد پر دہلی ہائی کورٹ کا مقام

دہلی ہائی کورٹ نے حال ہی میں ایک اہم فیصلہ دیا ہے جس میں اس نے ایک بیوی کی اس اپیل کو خارج کر دیا جس نے اپنے خلاف طلاق کے فیصلے کو چیلنج کیا تھا۔ عدالت کے فیصلے میں ایک اہم نقطہ اُبھر کر سامنے آیا ہے کہ شادی کی بنیاد صرف جسمانی قربت نہیں بلکہ اعتماد، وفاداری اور شفافیت ہے۔ اس فیصلے نے نہ صرف قانونی دائرہ کار کو واضح کیا ہے بلکہ ازدواجی رشتوں میں ضروری اخلاقی اقدار کی بھی عکاسی کی ہے۔

اس کیس میں شوہر نے الزام عائد کیا تھا کہ اس کی بیوی کے دو دوسرے مردوں کے ساتھ ناجائز تعلقات ہیں، اور وہ ان کے ساتھ رات بھر وقت گزارتی تھی۔ بیوی نے ان ملاقاتوں کو محض پیشہ ورانہ تعلقات قرار دیا، لیکن عدالت نے اس کے اس دعوے کی سچائی کے حق میں کوئی ٹھوس شواہد نہیں ملے۔ اگرچہ بیوی نے یہ بات کہی کہ اس کے تعلقات صرف پروفیشنل ہیں، مگر وہ ان کے حق میں کوئی معاہدے، بل یا ای میلز پیش کرنے میں ناکام رہی۔

عدالت کی جانب سے بیوی کی بے بنیاد وضاحتیں

فیملی کورٹ نے بیوی سے پوچھا کہ وہ رات گئے تک ان افراد سے کہاں اور کیوں ملتی رہی ہے۔ اس کے جواب میں وہ بار بار کہتی رہی کہ وہ اس سوال کا جواب نہیں دے سکتی۔ کئی بار وضاحت کرنے پر بھی وہ مطمئن کن جواب دینے میں کامیاب نہ ہو سکی۔ اس صورتحال کے باعث عدالت نے اس بات کو محسوس کیا کہ اگر ایک عام آدمی اپنی رات کے گزارے ہوئے وقت کو بھول جاتا ہے تو یہ غیر معقول ہے۔

جسٹس انل کھیترپال اور جسٹس ہریش ویدیا ناتھن شنکر کی بنچ نے کہا کہ بے وفائی کو ہمیشہ براہ راست ثبوت سے ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ بعض اوقات حالات، طرز عمل اور مسلسل رازداری بھی ذہنی ظلم کا سبب بن سکتی ہے۔ عدالت نے مزید کہا کہ اگر کسی رشتے میں ایسے رویے ہوں جو خوف، شک اور جذباتی بے وفائی پیدا کریں اور ملزم فریق ان ابہامات کو دور کرنے میں ناکام رہے تو یہ صورتحال ذہنی ظلم کے زمرے میں آتی ہے۔

جذباتی بے وفائی کے قانونی اور اخلاقی اثرات

ہائی کورٹ نے یہ بھی واضح کیا کہ جذباتی بے وفائی کی شدت جسمانی بے وفائی کے برابر ہوتی ہے۔ عدالت کے مطابق، ایسے تعلقات جو اعتماد کی بنیادوں کو متزلزل کر دیتے ہیں، وہ بچے ہوئے رشتے کی بنیاد کو متاثر کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عدالت نے شوہر کے حق میں فیصلہ دیا، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ رشتوں میں اعتماد اور شفافیت کی بنیاد پر ہی ان کی بقاء ممکن ہے۔

یہ فیصلہ کیوں اہم ہے؟

یہ فیصلہ نہ صرف اس کیس کے حوالے سے اہمیت رکھتا ہے بلکہ اس سے عام مذہبی اور سماجی اقدار بھی متاثر ہوتی ہیں۔ یہ واضح کرتا ہے کہ شادی محض ایک قانونی معاہدہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک گہرے انسانی تعلق کی بھی عکاسی کرتا ہے۔ اس میں ایک دوسرے کے لیے محبت، احترام اور اعتماد کی ضرورت ہوتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ذہنی اور جذباتی ظلم کے مسائل کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ عدالت کا یہ فیصلہ ایک مثبت پیغام ہے جو کہ یہ بتاتا ہے کہ شادی کی بنیاد صرف جسمانی ملاقاتوں پر نہیں ہوتی بلکہ اس میں دو لوگوں کے درمیان کی کیمسٹری اور اعتماد کی اہمیت بھی شامل ہوتی ہے۔

شادی اور طلاق کے حالات میں طرز عمل کی اہمیت

یہ کیس اس بات کی بھی یاد دہانی کراتا ہے کہ ازدواجی رشتے میں جو طرز عمل اپنایا جاتا ہے وہ کتنا اہم ہوتا ہے۔ اگر ایک فرد اپنے ساتھی کے ساتھ ایمانداری اور شفافیت کے ساتھ پیش نہیں آتا تو یہ نہ صرف رشتے کے مستقبل کو متاثر کرتا ہے بلکہ اس کی صحت پر بھی برے اثرات مرتب کرتا ہے۔

عدالت نے یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ اتفاقیہ طور پر غلط فیصلہ کرنے یا بے وفائی کے الزامات دوسرے فریق کو ذہنی طور پر متاثر کر سکتے ہیں۔ تاہم، یہ ضروری ہے کہ دونوں فریقین اپنی غلطیوں کے بارے میں کھلے دل سے بات کریں اور ایک دوسرے پر اعتماد قائم کریں۔

آگے کی جانب: ازدواجی رشتوں کی مضبوطی کا مطلب

یہ فیصلہ واضح طور پر بتاتا ہے کہ ازدواجی رشتے کی مضبوطی کا مطلب صرف جسمانی قربت نہیں ہے بلکہ یہ اعتماد، وفاداری اور شفافیت کی بنیاد پر ہی قائم ہوتا ہے۔ اس معاملے میں طلاق کا فیصلہ صرف ایک قانونی معاملہ نہیں تھا بلکہ اس نے اس بات کی بھی عکاسی کی کہ ازدواجی تعلقات کی نوعیت کیا ہونی چاہیے۔

اس کے علاوہ، اس معاملے کے نتیجے میں معاشرے میں جو گفتگو شروع ہوگی وہ یقیناً اہم ہوگی۔ یہ رشتے کی صحت کو بہتر بنانے کی طرف ایک قدم ہوگا، اور لوگوں کو یہ سوچنے پر مجبور کرے گا کہ شادی کی بنیاد کیا ہونی چاہیے۔

کمیونٹی اور سماج میں اس فیصلے کے اثرات

یہ فیصلہ صرف ایک کیس نہیں ہے بلکہ یہ ایک مثال ہے کہ کیسے ازدواجی تعلقات میں خاندانی زندگی کی اہمیت کو سمجھا جانا چاہیے۔ دہلی ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ ایجاد کرتا ہے کہ خاندانی زندگی میں عدم اعتماد کی کیا قیمت ہوتی ہے اور یہ کہ ذہنی اور جذباتی صحت کی حفاظت کرنا کتنا ضروری ہے۔میڈیا رپورٹس نے بھی اس فیصلے کی اہمیت پر زور دیا ہے، جس نے نہ صرف ایک جوڑے کی زندگی کو متاثر کیا بلکہ پورے معاشرے اور ثقافت میں شادی کے حوالے سے اہم تبدیلیوں کی پکار کی ہے۔

دہلی ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ ایک نئے دور کا آغاز ہے جہاں رشتوں کی بنیادیں مضبوط کرنے کی طرف توجہ دی جا رہی ہے۔ یہ سب کو یاد دہانی کرواتا ہے کہ ایک خوشگوار اور صحت مند ازدواجی زندگی کے لیے ضروری ہے کہ دونوں طرف سے اعتماد، وفاداری اور شفافیت کے اصولوں کی پاسداری کی جائے۔