بہار اسمبلی انتخابات 2025، این ڈی اے کی غیر معمولی فتح، مہاگٹھ بندھن کی ناکامی، انتخابی شفافیت کے سوالات، سیمانچل کی نئی سیاست، مسلم ووٹ کا بدلتا ہوا رخ
بہار اسمبلی انتخابات 2025 کے نتائج نے ریاست کے سیاسی منظرنامے کو نہ صرف چونکا دیا بلکہ ایک نئے دوراہے پر لا کھڑا کیا ہے۔ یہ محض حکومت کی تبدیلی یا برقرار رہنے کا معاملہ نہیں، بلکہ انتخابی سیاست کی سمت بدلنے کی کہانی ہے۔ این ڈی اے نے 243 میں سے 202 نشستوں پر کامیابی حاصل کرکے ایک ایسی سبقت قائم کی جس کی توقع خود بی جے پی کے اندر بھی کم ہی کی جا رہی تھی۔ اس کے مقابلے میں مہاگٹھ بندھن صرف 35 نشستوں تک محدود ہو گیا۔ ووٹر ٹرن آؤٹ 67 فیصد سے زیادہ رہا اور سرکاری اعلانات میں اسے ’’ریکارڈ ووٹنگ، زیرو ری پول اور پرامن انتخاب‘‘ قرار دیا گیا۔
ان نتائج کے در پردہ کئی عوامل کارفرما ہیں—بی جے پی کی تنظیمی مضبوطی، نتیش کمار کی طویل حکمرانی کا تاثر، مہاگٹھ بندھن کی ناقص حکمت عملی، انتخابی کمیشن کے متنازع اقدامات اور سیمانچل کی الگ سیاسی نبض۔
انتخابی مہمات میں ترقی، روزگار، صحت، تعلیم اور مہنگائی جیسے بنیادی مسائل کہیں پس منظر میں دھکیل دیے گئے۔ ان کی جگہ فرقہ وارانہ مباحث، بڑے بڑے وعدے اور جذباتی نعروں نے لے لی۔ جو لوگ اس جیت کو ’’اچھی حکمرانی‘‘ یا ’’ترقی‘‘ کی فتح قرار دیتے ہیں وہ زمینی حقیقت سے نظریں چرا رہے ہیں۔ خود این ڈی اے کے کئی سینئر لیڈران کے بیانات گواہی دیتے ہیں کہ انتخابی ایجنڈہ میں عوامی مسائل کو کس حد تک نظر انداز کیا گیا۔
انہی وجوہات کے باعث جب غیر متوقع نتائج سامنے آئے، تو سوالات اٹھنا فطری تھا۔ الیکشن کمیشن پہلے ہی شفافیت کے حوالے سے عوامی اعتماد میں کمی محسوس کر رہا تھا، اور اب بہار کے نتیجے نے اس بحث کو مزید تقویت دی۔ سب سے بڑا سوال یہی ہے کہ جس جماعت کو سب سے زیادہ ووٹ فیصد ملا، اسے کم نشستیں کیوں ملیں، اور جسے کم فیصد ملا، وہ زیادہ نشستیں کیسے جیت گئی؟ آر جے ڈی کو 23 فیصد ووٹ ملے مگر نشستیں محض 25۔ دوسری طرف بی جے پی کو تقریباً 20 فیصد ووٹ حاصل ہوئے اور نشستیں 89۔ اسی طرح ایل جے پی کے ووٹ کم لیکن نشستیں حیران کن طور پر زیادہ۔ اس تضاد نے انتخابی برابری اور شفافیت پر کئی نئے سوالات کھڑے کیے ہیں۔
سب سے زیادہ تنازع ووٹر لسٹوں کی خصوصی نظرثانی یعنی ایس آئی آر کے دوران پیدا ہوا، جس میں 65 لاکھ ووٹروں کے نام حذف کیے گئے۔ اپوزیشن نے اس پر سخت اعتراض کیا مگر بی جے پی کی خاموشی تشویش پیدا کرتی ہے۔ بعد میں 20 لاکھ نئے ووٹر شامل کیے گئے، جن میں پانچ لاکھ شاملے ایسے تھے جن کا اندراج بغیر ایس آئی آر فارم کے ہوا۔ یہ وہ مقام تھا جہاں انتخابی شفافیت پہلی بار مشکوک ہوئی۔
یہ بھی پہلی بار ہوا کہ کسی جماعت نے 101 نشستوں پر الیکشن لڑ کر 89 جیت لیں—یعنی تقریباً 95 فیصد کی کامیابی۔ یہ سوال بغیر جواب ہے کہ کیا یہ سب محض اتفاق تھا یا کسی بڑی حکمتِ عملی کا حصہ؟
مہاگٹھ بندھن کی مجموعی کارکردگی بھی اس شکست کا بڑا سبب ہے۔ تیجسوی یادو اپنی سیٹ تو بچا گئے، مگر ان کا اتحادی مکیش سہنی ایک بھی نشست نہ جیت سکے۔ کانگریس اور بائیں بازو کی جماعتیں بھی چند نشستوں تک محدود رہ گئیں۔ اس کے برعکس آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین نے اتحاد میں شامل نہ کیے جانے کے باوجود 26 نشستوں پر میدان میں اتر کر 5 اہم حلقے جیت لیے اور کئی میں سخت مقابلہ کیا۔ ان کی کامیابیوں کا مارجن بھی واضح تھا — 23 ہزار سے 38 ہزار ووٹوں کے فرق سے۔
2025 میں کل 9 مسلم امیدوار کامیاب ہوئے، جن میں 5 مجلس کے، 3 آر جے ڈی کے اور ایک جے ڈی یو کے۔ یہ اعداد سیمانچل میں مسلم ووٹ کی نئی سیاسی سمت کی طرف اشارہ کرتے ہیں، جہاں عوام نے روایتی حمایت کے بجائے نمائندگی کے نئے امکانات کو آزمانے کا فیصلہ کیا۔
یہ بھی غور طلب ہے کہ 20 سال کی حکومتی تھکن، بے روزگاری، مہنگائی، ہجرت، پیپر لیک جیسے سنگین بحران اور عوامی ناراضگی کے باوجود این ڈی اے کو اتنی بڑی جیت کیسے ملی؟ اگر یہ انتخابی حکمتِ عملی تھی تو بے حد کامیاب، مگر اگر یہ انتخابی عمل کا فطری نتیجہ تھا تو ناقابلِ یقین حد تک غیر متوازن۔
سماجی میڈیا اور مین اسٹریم میڈیا کا کردار بھی نتائج پر اثرانداز ہوا۔ اپوزیشن کو پہلے دن سے کمزور اور منتشر پیش کیا گیا، جبکہ این ڈی اے کے بیانیے کو خواہ کتنی ہی کمزور بنیادیں ہوں، بھرپور تقویت دی گئی۔
آخر میں بات یہی ہے کہ یہ نتائج نہ صرف سیاسی منظرنامے کی تبدیلی کی علامت ہیں بلکہ آئندہ انتخابی حکمت عملی کا اشارہ بھی دیتے ہیں۔ اپوزیشن کو اب نئے انداز میں سوچنا ہوگا، ورنہ اس کی تمام تدبیریں واقعی ’’الٹی‘‘ ہوتی رہیں گی۔
اس مضمون میں بیان کیے گئے خیالات اور تجزیات مکمل طور پر مصنف کے اپنے ہیں۔ ادارہ ان خیالات کا ذمہ دار نہیں۔
(مضمون نگار انقلاب دہلی کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر ہیں)
yameen@inquilab.com

