موبائل فون میں ’سنچار ساتھی‘ ایپ لازمی قرار، سرکاری احکام پر حزب اختلاف برہم

سائبر سیکیورٹی کا سرکاری دعویٰ یا ریاستی نگرانی کا...

ہند-نیپال سرحد سے 6 ماہ میں 100 خواتین غائب: انسانی اسمگلنگ کا شبہ

ہند-نیپال سرحد سے گزشتہ 6 ماہ میں تقریباً 100...

دہلی ہائی کورٹ کا طلاق کا فیصلہ: شادی میں اعتماد کی اہمیت پر زور

دہلی ہائی کورٹ نے طلاق کے مقدمے میں فیصلہ...

الٹی ہو گئیں سب تدبیریں: بہار کے انتخابی نتائج کا سیاسی متن و حاشیہ

بہار اسمبلی انتخابات 2025، این ڈی اے کی غیر...

دہلی دھماکے کے بعد سیکیورٹی کے سخت انتظامات، شہریوں کے تعاون کی ضرورت

دہلی دھماکے کے بعد شہر بھر میں سیکیورٹی ہائی...

بدتمیز بچہ یا ہمارا آئینہ؟ کے بی سی کے ایک منظر نے نسل نو کی تربیت پر سوال اٹھا دیے

جب کون بنے گا کروڑ پتی کی معصوم کرسی پر بیٹھا بچہ علم نہیں، انا کا تماشا دکھانے لگے

سوشل میڈیا پر وائرل ایک کلپ نے واضح کر دیا کہ آج کے بچے علم سے زیادہ خوداعتماد ہیں، مگر ادب اور عاجزی سے محروم۔ میں اب ٹیلی ویژن نہیں دیکھتا۔ وہاں دیکھنے کے لائق کچھ باقی نہیں رہا۔ جو کبھی آگاہ کرتا تھا، اب محض تفریح دیتا ہے، اور جو کبھی روشنی پھیلاتا تھا، اب اداکاری کرتا ہے۔ نیوز اینکر چیختے ہیں، مباحثے ہنگاموں میں بدل جاتے ہیں، اور "ریئلٹی شوز” جذبات کو یوں بیچتے ہیں جیسے کوئی چیز فروخت کر رہے ہوں۔ مگر ستم یہ ہے کہ ہم ٹی وی دیکھنا چھوڑ بھی دیں تو ٹی وی ہمیں نہیں چھوڑتا۔ سوشل میڈیا شور کو خود چل کر ہمارے فون تک لے آتا ہے۔

اسی طرح میری نظر کون بنے گا کروڑپتی کے ایک وائرل کلپ پر پڑی۔ ایک کم عمر بچہ، بمشکل دس سال کا، امیتابھ بچن کے سامنے بیٹھا تھا، لہجے میں ایسی نخوت کہ بڑے بھی شرما جائیں۔ بولا، "میں رولز جانتا ہوں، مت سمجھائیے۔” پھر اگلے سوال پر کہا، "مجھے آپشن کی ضرورت نہیں، میں جواب جانتا ہوں۔” اور جب غلط جواب دیا تو فخر سے کہا، "لاک کر دیجیے سر، چار تالے لگا دیجیے۔” قوم پہلے ہنسی، پھر غصے میں آئی، اور پھر اخلاقیات سکھانے لگی۔ مگر اس ہنگامے کے نیچے ایک آئینہ چھپا ہے، وہ چہرہ جو دراصل ہمارا اپنا ہے۔

یہ بچہ کوئی استثنا نہیں، بلکہ اس نسل کی علامت ہے جو ماہرینِ نفسیات کے مطابق "سِکس پاکٹ سنڈروم” کا شکار ہے۔ چھ جیبیں، یعنی والدین، نانا نانی، دادا دادی سب اپنی محبت اور دولت ایک ہی بچے پر نچھاور کر دیتے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ وہ فراوانی میں پلتا ہے مگر شکرگزاری اور صبر سے ناآشنا رہتا ہے۔ کماتا کچھ نہیں مگر حکم سب پر چلاتا ہے۔ احترام اس کے نزدیک کمانے کی چیز نہیں بلکہ خودبخود ملنے والا حق ہے۔ آج کی جین زی اور اس کے بعد آنے والی "الفا” نسل ڈیجیٹل دور کی اولاد ہے۔ یہ کتابیں نہیں پڑھتے، سکرول کرتے ہیں۔ سنتے نہیں، نشر کرتے ہیں۔ سیکھتے نہیں، دکھاتے ہیں۔ ان کے ہیرو لکھنے والے نہیں، پوسٹ کرنے والے ہیں۔ انہیں سکھایا گیا ہے کہ اعتماد سب کچھ ہے، لہٰذا وہ اسے دکھاتے ہیں، چاہے کھوکھلا ہی کیوں نہ ہو۔ نرمی ان کے نزدیک کمزوری، عاجزی ایک خامی، اور خاموشی گناہ بن چکی ہے۔ یہ صرف بدتمیزی نہیں بلکہ ایک عہد کی بیماری ہے، یعنی مصنوعی خوداعتمادی کا زمانہ۔

ہر لائک، ہر کمنٹ، ہر فالور انہیں یہ یقین دلاتا ہے کہ وہ اہم ہیں۔ کے بی سی کا بچہ دراصل امیتابھ بچن سے نہیں، اپنے فون کے اندر موجود فرضی ناظرین سے بات کر رہا تھا۔ وہ گستاخ نہیں بننا چاہتا تھا، وہ صرف توجہ حاصل کر رہا تھا۔

قصور صرف بچے کا نہیں۔ قصور ہمارا ہے۔ ان بڑوں کا جو تعلیم کو تربیت سمجھ بیٹھے، اور یہ بھول گئے کہ اسکول اخلاق نہیں سکھاتے، گھروں کے لہجے سکھاتے ہیں۔ ہم نے وہ نسل پیدا کی جو بولتی بہت ہے مگر سنتی نہیں، معلومات بانٹتی ہے مگر اخلاق نہیں۔ میڈیا بھی بری الذمہ نہیں۔ وہ ذہانت کو عقل پر، شوخی کو وقار پر، اور "وائرل” لمحے کو "قابلِ قدر” سبق پر ترجیح دیتا ہے۔ امیتابھ بچن نے اس لمحے جو صبر و سکون کا مظاہرہ کیا، وہ ہزار خطبوں سے بڑھ کر تھا۔ انہوں نے کہا، "کبھی کبھی بچے زیادہ اعتماد میں غلطیاں کر بیٹھتے ہیں۔” یہ جملہ دراصل پوری نسل کے لیے نصیحت ہے۔ سچ یہ ہے کہ ہمارے بچے معلومات میں امیر، مگر غور و فکر میں غریب ہو چکے ہیں۔ ان کے پاس سب کچھ ہے، سوائے رُکنے کی صلاحیت کے۔ کے بی سی کا یہ واقعہ کسی بچے کی بدتمیزی نہیں، بلکہ اس معاشرے کی بے سمتی کا ثبوت ہے جو شور کو شعور پر ترجیح دیتا ہے۔ ہم ایسی نسل پال رہے ہیں جن کی چھ جیبیں بھری ہوئی ہیں مگر ضمیر خالی ہے۔ ہم انہیں جیتنا سکھا رہے ہیں، ہارنا نہیں۔ ہم ان میں جذبہ پیدا کر رہے ہیں، احساس نہیں۔

ایک دن شاید ہمیں احساس ہوگا کہ مقصد کروڑپتی بنانا نہیں بلکہ انسان بنانا ہے۔ کیونکہ اصل سوال یہ نہیں کہ کون بننا چاہتا ہے کروڑپتی، بلکہ یہ ہے کہ کون یاد رکھتا ہے انسان بننا۔