سوامی چیتنیانند سرسوتی گرفتار: طالبات کے ساتھ جنسی استحصال کا سنسنی خیز معاملہ

جنسی استحصال کے ملزم کی گرفتاری: دہلی پولیس کی کاروائی

دہلی کے ایک پرائیویٹ مینجمنٹ انسٹی ٹیوٹ میں طالبات کے ساتھ جنسی استحصال کے معاملے میں فرار ملزم سوامی چیتنیانند سرسوتی کو دہلی پولیس نے آگرہ سے گرفتار کر لیا ہے۔ یہ گرفتاری اس وقت ہوئی جب دہلی پولیس نے ملزم کی تلاش میں شدت اختیار کر لی تھی، خاص طور پر اس کی آخری لوکیشن آگرہ میں ملی تھی۔ سوامی چیتنیانند سرسوتی، جس کی عمر 62 سال ہے، پر الزام ہے کہ انہوں نے طالبات کے ساتھ جنسی استحصال کیا اور انہیں دھمکایا۔

معلومات کے مطابق، سوامی چیتنیانند کی گرفتاری آج رات تقریباً 3:30 بجے ایک ہوٹل سے کی گئی۔ اس کو چند دنوں سے آگرہ میں چھپے ہونے کی اطلاعات موصول ہوئی تھیں، جس کے بعد پولیس نے وہاں چھاپے مارنے کا فیصلہ کیا۔ فی الحال، ملزم سے معاملے میں مزید تفتیش کی جا رہی ہے اور اس کا طبی معائنہ بھی کیا جا رہا ہے تاکہ اس کے کیس کے سلسلے میں مزید ثبوت اکٹھے کیے جا سکیں۔

واقعات کا پس منظر اور ملزم کے خلاف الزامات

یہ معاملہ اس وقت سامنے آیا جب ایک طالبہ، جو اقتصادی طور پر کمزور طبقے سے تعلق رکھتی ہے، نے مارچ 2025 میں شکایت درج کرائی۔ اس شکایت میں اس نے یہ الزام لگایا تھا کہ سوامی چیتنیانند سرسوتی نے اس سے 60,000 روپے چندہ کی درخواست کی اور اس کے بعد اضافی رقم کا مطالبہ کیا۔ ملزم نے طالبہ کو یہ بھی کہا کہ اگر وہ یہ رقم نہیں دیتی تو اسے انسٹی ٹیوٹ میں بغیر تنخواہ کے کام کرنا ہوگا یا کالج چھوڑنا ہوگا۔

دہلی کے جنوب مغربی علاقے میں واقع مینجمنٹ انسٹی ٹیوٹ کی انتظامیہ نے بتایا کہ 30 سے زائد طالبات کے ساتھ ایک ورچوئل میٹنگ کے دوران، کئی طالبات نے سوامی چیتنیانند کی طرف سے جنسی استحصال، چھیڑ چھاڑ، اور دھمکیوں کے بارے میں آگاہ کیا، جس کے نتیجے میں 4 اگست 2023 کو چیتنیانند کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی۔

پولیس کی کاروائی اور گرفتاری کی تفصیلات

پولیس نے بتایا کہ سوامی چیتنیانند طالبات کو اپنے کوارٹر میں آنے کے لئے مجبور کرتا تھا اور نہ آنے کی صورت میں انہیں ناکام کرنے کی دھمکی دیتا تھا۔ اس کے علاوہ، اس نے کچھ خواتین کو بھی اپنی ٹیم میں شامل کیا تھا جو کالج کی طالبات کی چیٹ ڈیلیٹ کرنے میں مدد کرتی تھیں۔ پولیس نے یہ بھی انکشاف کیا کہ چیتنیانند طالبات کو لندن گھمانے کا لالچ دیتا تھا اور انہیں یقین دلاتا تھا کہ وہ اپنے پیسوں کے بغیر سفر کر سکتی ہیں۔

ملزم نے دہلی کی ایک عدالت میں اپنے خلاف لگے الزامات کے حوالے سے ضمانت کی درخواست دائر کی تھی، لیکن جمعہ کو عدالت نے اس کی عبوری ضمانت کی درخواست مسترد کر دی۔ ایڈیشنل سیشن جج ہردیپ کور نے کہا کہ تحقیقات ابھی ابتدائی مرحلے میں ہیں اور پولیس کی یہ ضرورت ہے کہ وہ دھوکہ دہی، سازش، اور غیر ضروری مالی استعمال کے ریکٹ کی کھوج کے لئے ملزم سے تفتیش کرے۔

آنے والے دنوں میں کیا توقع کی جائے؟

یہ معاملہ اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ تعلیمی اداروں میں جنسی استحصال کی صورت حال کتنی سنگین ہو سکتی ہے، خاص طور پر جب طاقتور افراد اپنے عہدوں کا غلط استعمال کرتے ہیں۔ یہ بھی واضح ہے کہ متاثرہ طالبات نے اپنی آواز اٹھانے کی ہمت کی، جس نے اس کیس کی جانچ کا آغاز کیا۔

دہلی پولیس کی کاروائیاں اور تحقیقات اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ متاثرہ افراد کی آوازوں کو سنا جا رہا ہے اور ان کے حقوق کا تحفظ کیا جا رہا ہے۔ اس معاملے کے دوران حکومت اور تعلیمی اداروں کو بھی یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ وہ ایسے مسائل کی روک تھام کے لئے کیا اقدامات کر سکتے ہیں۔

بالآخر، اس کیس کے نتائج صرف ملزم کی سزا تک ہی محدود نہیں رہیں گے بلکہ یہ ایک مثال قائم کریں گے کہ جنسی استحصال کے خلاف آواز اٹھانا اور انصاف طلب کرنا ممکن ہے۔

اگلے مراحل کیا ہوں گے؟

اس کیس کے بعد، ہمیں دیکھنا ہوگا کہ کیا مزید طالبات اپنی داستانیں پیش کرتی ہیں۔ عام طور پر، جب اس طرح کے معاملات سامنے آتے ہیں تو یہ متاثرہ افراد کے لئے ایک نیا موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ اپنی کہانیاں سنائیں اور دیگر متاثرہ افراد کو آواز بلند کرنے کی ترغیب دیں۔

مزید یہ کہ تعلیمی اداروں کے لئے یہ ایک اہم لمحہ ہوگا کہ وہ اپنے اندر کیا تبدیلیاں لاتے ہیں تاکہ ایسی صورت حال کی روک تھام کی جا سکے۔ انصاف کی یہ لڑائی صرف اس کیس کی حد تک نہیں رہے گی بلکہ یہ ایک وسیع تر سماجی بیانیہ تشکیل دے گی جس میں خواتین کے حقوق اور تحفظ کے بارے میں شعور بڑھانے کی ضرورت ہوگی۔

مختلف پہلو

اس کیس کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ اس میں شامل افراد کی نفسیاتی حالت پر غور کرنا بھی انتہائی اہم ہے۔ جن طالبات نے اس صورتحال کا سامنا کیا، ان کی حالت زار کا اندازہ لگانا بہت ضروری ہے۔ انہیں نہ صرف قانونی مدد کی ضرورت ہوگی بلکہ نفسیاتی مدد بھی فراہم کی جانی چاہئے تاکہ وہ اس تجربے سے گزرنے کے بعد اپنے آپ کو بحال کر سکیں۔

مزید برآں، یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ آیا اس کیس کے بعد دیگر اداروں میں بھی خواتین کے خلاف ہونے والے استحصال کی روک تھام کے لئے نئی پالیسیز متعارف کرائی جائیں گی۔

کیا یہ ایک نئی شروعات ہے؟

یہ معاملہ کئی طرح کی تحریکات کا آغاز کر سکتا ہے۔ جس طرح کے مسائل کا سامنا خواتین کو تعلیمی اداروں میں ہوتا ہے، ان کے خاتمے کے لئے فروغ دینے والی پالیسیز کی ضرورت محسوس کی جانی چاہئے۔ اس کیس نے اس بات کا بھی پتہ دیا ہے کہ ہم سب کو ایک دوسرے کی مدد کرنی ہوگی تاکہ ہم ایک ایسے سماج کی تشکیل کر سکیں جہاں ہر فرد کو محفوظ محسوس ہو۔

یہ ایک لمحہ ہے سب کے لئے کہ وہ اس مسئلے کی سنگینی پر غور کریں اور اپنی آواز اٹھائیں تاکہ کوئی بھی فرد اس طرح کے استحصال کا شکار نہ ہو۔

ملزم کی گرفتاری کے بعد، اس کیس کی مزید تفصیلات بھی سامنے آ سکتی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی، ہم امید کرتے ہیں کہ اس معاملے میں انصاف ملے گا اور متاثرہ طالبات کو اپنی زندگی کے باقی ماندہ سفر میں پر سکون رہنے کا موقع ملے گا۔

ہمیں دیکھنا ہوگا کہ یہ کیس سماجی شعور کو کس طرح بڑھاتا ہے اور خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لئے کیا اقدامات کئے جاتے ہیں۔