پیغمبر ﷺ سے اظہار عشق پر ایف آئی آر پر مذہبی آزادی، امن و امان اور ریاستی عملداری کے کئی سوالات
کانپور کا سید نگر، راوت پور علاقہ اس ہفتے ایک ایسے واقعہ کا مرکز بنا جس نے مذہبی آزادی، امن و امان اور ریاستی عملداری کے کئی سوالات کھڑے کر دیے۔ 4 ستمبر کو عید میلاد النبی ﷺ کے جلوس کے دوران شرکا نے رام نومی شو بھا یاترا کے گیٹ کے قریب ٹاٹ کے ڈھانچے پر "I Love Muhammad” لکھا ہوا بورڈ نصب کیا۔ بظاہر یہ ایک سادہ مذہبی اظہار تھا مگر اس نے فوراً ماحول کو گرما دیا۔ ہندو تنظیموں کے کارکنان نے موقع پر احتجاج کیا، زبردست ہنگامہ کھڑا ہو گیا اور فضا کشیدہ ہو گئی۔ پولیس کی بھاری نفری تعینات کر کے حالات کو قابو میں لایا گیا اور بورڈ ہٹا دیا گیا۔
یہاں تک تو معاملہ محض ایک مقامی تنازع لگ رہا تھا مگر ایک ہفتے بعد پولیس نے جس انداز میں کارروائی کی اس نے بحث کو نیا رخ دے دیا۔ 14 ستمبر کو 25 مسلمانوں کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی جن میں 8 کو نامزد کیا گیا: شرافت حسین، سبور عالم، بابوعلی، محمد سراج نجور، رحمان، اکرام احمد، اقبال اور بنٹی۔ باقی 15 نامعلوم ہیں اور دو گاڑیوں کے ڈرائیوروں کو بھی ملزم بنایا گیا ہے۔ پولیس کے مطابق یہ کارروائی سی سی ٹی وی فوٹیج کی بنیاد پر کی گئی اور مقصد امن قائم رکھنا ہے، مگر مقامی لوگ اسے یکطرفہ قرار دے رہے ہیں اور الزام لگاتے ہیں کہ یہ مذہبی اقلیتوں پر دباؤ ڈالنے کی کوشش ہے۔
آئینی اور سماجی پس منظر
ہندوستان کا آئین مذہبی آزادی کو بنیادی حق قرار دیتا ہے۔ آرٹیکل 25 ہر شہری کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ اپنے مذہب پر عمل کرے، اس کی تبلیغ کرے اور اپنے مذہبی جذبات کا اظہار کرے۔ "I Love Muhammad” لکھنا اسی حق کا حصہ سمجھا جا سکتا ہے۔ لیکن مسئلہ وہاں پیدا ہوتا ہے جب ایسا اظہار کسی دوسرے مذہبی مقام، گیٹ یا نشان کے قریب کیا جائے اور وہ دوسرے فریق کو اشتعال انگیزی محسوس ہو۔ یہی وہ باریک لکیر ہے جہاں ریاست اور انتظامیہ کو توازن قائم کرنا ہوتا ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ مذہبی جذبات کے ٹکراؤ کی تاریخ طویل ہے۔ جلوس، یاترائیں اور مذہبی تقریبات اکثر اسی لیے پولیس کی نگرانی میں ہوتی ہیں تاکہ چھوٹی سی بات بھی بڑے فساد کا باعث نہ بن جائے۔ اس واقعے نے ایک بار پھر یہ ثابت کیا کہ دونوں برادریوں کے درمیان اعتماد کی کمی کتنی گہری ہو چکی ہے۔
پولیس کی کارروائی اور شفافیت کا سوال
پولیس نے ایک ہفتہ بعد کارروائی کی، جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ فیصلہ عجلت میں نہیں ہوا بلکہ سوچ سمجھ کر کیا گیا۔ سی سی ٹی وی فوٹیج کا استعمال درست سمت میں قدم ہے، مگر سوال یہ ہے کہ کیا دوسری طرف کے احتجاجی عناصر کی شناخت بھی اسی شفافیت سے کی گئی؟ کیا ان کے خلاف بھی کارروائی ہوئی؟ اگر نہیں تو یہ کارروائی متعصبانہ محسوس ہو گی۔ انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ دونوں فریقوں کو برابر ذمہ دار ٹھہرایا جائے تاکہ کسی کو یہ احساس نہ ہو کہ قانون صرف ایک برادری کے لیے سخت ہے اور دوسری کے لیے نرم۔
سیاسی پہلو
یہ واقعہ محض ایک پولیس کیس نہیں، یہ اس بڑے سیاسی پس منظر سے جڑا ہے جہاں مذہب کے نام پر پولرائزیشن ایک اہم انتخابی ہتھیار بن چکا ہے۔ اتر پردیش جیسے حساس ریاست میں ایسے معاملات فوراً سیاسی رنگ اختیار کر لیتے ہیں۔ ہندو تنظیمیں اسے "مذہبی جارحیت” کے طور پر پیش کریں گی اور مسلمان اسے "اقلیتی دباؤ” کے بیانیے کے طور پر۔ دونوں بیانیے ووٹ بینک کو مضبوط کرتے ہیں مگر معاشرتی ہم آہنگی کو کمزور کرتے ہیں۔
سماجی اثرات اور مستقبل کے خدشات
اگر یہ ایف آئی آر یکطرفہ ثابت ہوئی اور صرف ایک برادری کو نشانہ بنایا گیا تو اس کے دور رس نتائج ہوں گے۔ مقامی سطح پر بداعتمادی بڑھے گی، لوگ ریاستی اداروں کو غیر جانبدار نہیں سمجھیں گے اور ہر چھوٹا واقعہ بڑے فساد میں بدل سکتا ہے۔ یہ وہ فضا ہے جو نہ پولیس کے لیے اچھی ہے نہ عام شہریوں کے لیے۔
اس لیے ضروری ہے کہ انتظامیہ اس معاملے کی شفاف تفتیش کرے اور دونوں برادریوں کے نمائندوں کو ساتھ بٹھا کر مصالحتی عمل شروع کرے۔ ایسے ضابطے وضع کیے جائیں کہ مذہبی تقریبات میں ایک دوسرے کے جذبات کا احترام یقینی بنایا جا سکے۔
"I Love Muhammad” لکھنا محض ایک مذہبی جذبے کا اظہار تھا جو کچھ لمحوں کے لیے فرقہ وارانہ کشیدگی کا سبب بن گیا۔ مگر اصل امتحان اب شروع ہوتا ہے کہ ریاست اس معاملے کو کس طرح حل کرتی ہے۔ اگر یہ کارروائی انصاف اور شفافیت کے ساتھ ہوئی تو یہ ایک مثبت مثال بن سکتی ہے۔ اگر نہیں تو یہ واقعہ آنے والے دنوں میں مزید تقسیم اور بداعتمادی کو جنم دے گا۔
یہ وقت ہے کہ ہم سب اپنے اپنے تعصبات سے باہر نکل کر سوچیں۔ مذہبی آزادی اور دوسروں کے جذبات کا احترام دونوں لازم ہیں۔ ایک کو دوسرے کی قیمت پر قربان نہیں کیا جا سکتا۔ اگر ہم نے یہ توازن قائم نہ کیا تو ہر سال ایسے واقعات مزید بڑھیں گے اور معاشرہ مستقل کشیدگی میں جیے گا۔