دہلی میں سرکاری اسکولوں کی موجودہ صورت حال اور ہائیکورٹ کی مداخلت
دہلی کے سرکاری اسکولوں کی حالت بہت قابل رحم ہو چکی ہے، جس پر دہلی کانگریس کے صدر، دیویندر یادو نے گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے حال ہی میں دہلی کے وزیرِ تعلیم کے اس دعوے کا حوالہ دیا کہ سرکاری اسکولوں میں پرائیویٹ اسکولوں کے برابر جدید سہولیات فراہم کی جائیں گی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ بہت سے سرکاری اسکول آج بھی خستہ حال ٹین شیڈز میں چلائے جا رہے ہیں۔ دہلی ہائی کورٹ نے اس سنگین مسئلے پر دہلی حکومت کو سخت نوٹس دیتے ہوئے اس بات کی وضاحت کرنے کا کہا ہے کہ اگر حکومت بنیادی سہولیات فراہم نہیں کر سکتی تو وہ کیسے پرائیویٹ اداروں کا مقابلہ کر سکتی ہے۔
دیویندر یادو کے مطابق، یہ صرف بچوں کی تعلیم کا معاملہ نہیں بلکہ ان کی صحت اور ترقی کا بھی ہے۔ انہوں نے اشارہ کیا کہ مختلف علاقوں، جیسے اشوک نگر، زینت محل، اور میور وہار میں بہت سے اسکول ٹین شیڈ میں چل رہے ہیں، جہاں نہ مناسب ہوا کا گزر ہے، نہ درجہ حرارت کنٹرول کی سہولیات۔ ایسے حالات میں بچوں کی تعلیم متاثر ہو رہی ہے، اور انہیں شدید گرمی میں تعلیم حاصل کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔
بنیادی سہولیات کی کمی: دہلی کے سرکاری اسکولوں کا ڈیٹا
دہلی کانگریس کے صدر نے مزید وضاحت کی کہ دہلی کے 799 سرکاری اسکولوں میں بنیادی سہولیات کی کمی ہے۔ ان کے مطابق، 22 اسکول پانی کے ٹینکرز پر انحصار کر رہے ہیں، 64 اسکول بورویل سے پانی لیتے ہیں، اور 48 اسکولوں میں پانی کی غیر موجودگی یا بے قاعدگی کی شکایات ہیں۔ مزید یہ کہ 6 اسکولوں میں بجلی کا کنکشن نہیں ہے، اور دیگر اسکولوں میں بجلی کی سپلائی غیر مستقل ہے۔ یہ صورتحال طلبا اور اساتذہ دونوں کے لیے شدید مشکلات پیدا کر رہی ہے۔
یادو نے سوال اٹھایا کہ کیسے دہلی حکومت کے ایسے اسکول پرائیویٹ اسکولوں سے مقابلہ کر سکتے ہیں جو جدید ٹیکنالوجی اور بہتر بنیادی ڈھانچے کی فراہمی کر رہے ہیں؟ اروند کیجریوال کی حکومت کا 11 سالہ دور بھی دہلی کے تعلیمی نظام کی بہتری میں ناکام رہا ہے، جب کہ بی جے پی کی حالیہ حکومت نے بھی اس معاملے میں کوئی خاص قدم نہیں اٹھایا۔
اساتذہ کی کمی: کیا معیاری تعلیم ممکن ہے؟
دیویندر یادو نے اس بات پر بھی زور دیا کہ دہلی کے اسکولوں میں اساتذہ کی کمی کا مسئلہ بھی موجود ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کئی اساتذہ کو کم تنخواہ پر رکھے جانے والے گیسٹ ٹیچرز کے طور پر کام کرنا پڑتا ہے، جو ہمیشہ ذہنی دباؤ کا شکار رہتے ہیں۔ ایسے حالات میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا یہ اساتذہ واقعی بچوں کو معیاری تعلیم فراہم کر سکتے ہیں؟
یہ مسئلہ نہ صرف دہلی کے بچوں کی تعلیمی حالت میں رکاوٹ ہے بلکہ اس کے اثرات ان کی ذہنی نشوونما پر بھی مرتب ہو رہے ہیں۔ دیویندر یادو نے واضح کیا کہ صرف اعلانات کرنے سے کچھ نہیں ہوگا، بلکہ عملی اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ بچوں کی تعلیم کا معیار بہتر بنایا جا سکے۔
کیا دہلی حکومت کو عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے؟
اس معاملے کی شدت کو مد نظر رکھتے ہوئے، دہلی ہائی کورٹ نے اس بات کا مطالبہ کیا ہے کہ ٹین شیڈ میں چلنے والی کلاسوں کو مستقل عمارتوں میں منتقل کیا جائے۔ یہ اقدام نہ صرف بچوں کی تعلیم کے لیے ضروری ہے بلکہ ان کی صحت اور سلامتی کے لیے بھی لازمی ہے۔
کئی اسکولوں کی حالت زار اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ دہلی حکومت کو فوری طور پر بنیادی ڈھانچے کی بہتری پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ، دیویندر یادو نے یہ بھی کہا کہ دہلی کے تعلیمی ماڈل کی تشہیر کرنے کے بجائے، حکومت کو بچوں کی تعلیم کی بہتری پر توجہ دینی چاہیے۔
حکومت کی ناکامی: عوامی ردعمل
یہ تمام صورتحال دہلی کے شہریوں میں بڑے پیمانے پر خدشات پیدا کر رہی ہے۔ کئی والدین اور سماجی کارکنان اس بات پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں کہ ایسی حالت میں بچوں کی تعلیم کا مستقبل کیسا ہوگا؟ کیا دہلی کی حکومت اس مسئلے کو سنجیدگی سے لے گی، یا پھر یہ صرف ایک اور سیاسی بیان بن کر رہ جائے گا؟
دہلی کی تعلیم کا مستقبل: کیا کوئی امید ہے؟
اگرچہ یہ جہاں ایک سنگین مسئلہ ہے، وہیں اس میں بہتری کی امید بھی موجود ہے۔ اگر دہلی حکومت اور متعلقہ ادارے اس مشکل صورت حال کو سنجیدگی سے لیتے ہیں اور عملی اقدامات کرتے ہیں تو ممکن ہے کہ جلد ہی صورتحال میں بہتری آسکے۔ موجودہ وقت میں، ضروری ہے کہ والدین، طلباء، اور تعلیمی ادارے یکجا ہو کر اپنی آواز بلند کریں تاکہ دہلی میں بچوں کی تعلیم کی حالت بہتر ہوسکے۔
اس تمام صورتحال کے باوجود، دیویندر یادو نے دہلی کے عوام کو یقین دلایا کہ کانگریس اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھے گی اور عوامی حمایت کے ساتھ مل کر اس بات کو یقینی بنائے گی کہ بچوں کو معیاری تعلیم فراہم کی جائے۔
آگے کا راستہ: حکومت کے لیے چیلنج
دہلی حکومت کے لیے یہ ایک بڑا چیلنج ہے کہ وہ اپنے اسکولوں کی حالت کو بہتر بنائے اور بچوں کی تعلیم کے معیاری نظام کو قائم رکھ सके۔ یہ نہ صرف دہلی کے شہریوں کی تعلیم کا معاملہ ہے بلکہ ان کے مستقبل کی بنیاد بھی ہے۔ اگر دہلی حکومت واقعی کے سچے ارادوں کے ساتھ اس مسئلے کو حل کرنا چاہتی ہے، تو اسے فوری اور مؤثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
حکومت کو اس بات کا بھی خیال رکھنا ہوگا کہ وہ کس طرح بنیادی سہولیات فراہم کر کے سرکاری اسکولوں کی حالت کو بہتر بنا سکتی ہے، تاکہ وہ پرائیویٹ اسکولوں کا مؤثر مقابلہ کرنے کے قابل بن سکیں اور بچوں کو ایک صحت مند تعلیمی ماحول فراہم کر سکیں۔
<ایک اور ممکنہ راستہ یہ ہے کہ حکومت مختلف تعلیمی ماڈلز کے تجربات کرے اور ان کے نتائج کی بنیاد پر فیصلہ کرے کہ کون سا ماڈل زیادہ مؤثر ہے۔> یہ نہ صرف تعلیم کی بہتری کے لیے بلکہ آئندہ کے لیڈرز کی نسل کو بھی بہتر بنائے گا۔