راہل گاندھی نے رائے بریلی میں کی اہم میٹنگ، بی جے پی پر لگائے سنگین الزامات
کانگریس کے رکن پارلیمنٹ اور لوک سبھا میں حزب اختلاف کے قائد راہل گاندھی اس وقت اپنے پارلیمانی حلقہ رائے بریلی کے 2 روزہ دورے پر ہیں۔ ان کا یہ دورہ اس وقت منعقد ہوا جب سیاسی تناؤ اپنے عروج پر ہے۔ راہل گاندھی نے اپنے دورے کے آخری دن ’بچت بھون‘ میں ایک میٹنگ میں شرکت کی، جہاں انہوں نے کچھ اہم ترقیاتی منصوبوں پر تبادلہ خیال کیا۔
میٹنگ کے بعد جب راہل گاندھی میٹنگ ہال سے باہر نکلے تو صحافیوں نے انہیں گھیر لیا اور موجودہ سیاسی حالات پر سوالات کیے۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ پورے ملک میں ’ووٹ چور، گدی چھوڑ‘ نعرہ چل رہا ہے، جو کہ ایک حقیقت ہے۔ راہل گاندھی کا کہنا تھا کہ یہ نعرہ آتش کی طرح پھیل رہا ہے کیونکہ یہ عوام کی سچائی ہے۔
جب ایک صحافی نے بی جے پی لیڈران کی طرف سے دیے جا رہے بیانات پر ان کا رد عمل پوچھا تو راہل گاندھی نے کہا کہ، "بی جے پی کے لوگ جو اچھل رہے ہیں، ان سے کہنا چاہتا ہوں کہ آپ زیادہ اچھلیے مت۔ ہائیڈروجن بم آنے والا ہے۔” انہوں نے مزید کہا کہ "یہ بم جب آئے گا تو سارا کچھ صاف ہو جائے گا۔” ان کا یہ بیان ایک دھمکی کی صورت میں دیکھا جا رہا ہے، جس میں وہ بی جے پی حکومت کی ناکامیوں کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔
ووٹ چوری کے الزامات اور ثبوت کی فراہمی
راہل گاندھی نے اس موقع پر نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ووٹ چوری کرکے حکومتیں بن رہی ہیں اور وہ گارنٹی کے ساتھ عوام کو ثبوت فراہم کرنے والے ہیں۔ انہوں نے بہار میں ووٹر لسٹ کی گہری نظر ثانی (ایس آئی آر) کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ صرف بہار تک محدود نہیں ہے بلکہ مہاراشٹر، ہریانہ اور کرناٹک میں بھی ووٹ چوری کا کام ہو رہا ہے۔
راہل گاندھی نے دعویٰ کیا کہ "ہم نے اس (ووٹ چوری) کے بلیک اینڈ وہائٹ ثبوت بنگلورو سنٹرل کے دے دیے ہیں اور آنے والے وقت میں ہم مزید ایک دھماکہ خیز ثبوت آپ کو فراہم کرنے والے ہیں۔” اس بیان نے سیاسی حلقوں میں ہلچل مچا دی ہے اور لوگوں کی توجہ ایک بار پھر ووٹ چوری کے مسئلے کی طرف مبذول کرائی ہے۔
بی جے پی کا رد عمل اور مظاہرے
راہل گاندھی کے دورے کے دوران بی جے پی کے حامیوں نے احتجاج کیا۔ یہ مظاہرہ یوپی حکومت کے وزیر دنیش پرتاپ سنگھ کی قیادت میں ہوا، جنہوں نے راہل گاندھی کے قافلے کے راستے میں دھرنا دیا۔ ان کا یہ احتجاج بہار میں ہونے والے ایک واقعہ کے خلاف تھا، جہاں ایک اسٹیج سے راہل گاندھی کی موجودگی میں وزیراعظم مودی کی والدہ کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کیے گئے تھے۔
بی جے پی کارکنان اس عمل کے لیے راہل گاندھی سے معافی طلب کر رہے تھے، حالانکہ کانگریس کے رہنماؤں نے واضح کر دیا کہ نازیبا الفاظ کہنے والا شخص کسی بھی پارٹی سے تعلق نہیں رکھتا ہے۔ یہ بھی واضح کیا گیا کہ راہل گاندھی اور دیگر رہنما اسٹیج سے کافی دیر پہلے اتر چکے تھے، جب یہ بدکلامی کی گئی، جس کے باعث پولیس نے ملزم کو گرفتار بھی کر لیا۔
اجتماعی تشویش اور آئندہ کے اقدامات
یہ سیاسی ہلچل اس وقت ہو رہی ہے جب ملک کے انتخابات قریب آ رہے ہیں اور سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف الزامات لگا رہی ہیں۔ راہل گاندھی کے بیانات اور ان کے دعوے عوامی بحث کا موضوع بن چکے ہیں۔ کانگریس پارٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اس معاملے میں عوام کے سامنے مزید ثبوت پیش کرے گی تاکہ انتخابی میدان میں اپنی ساکھ کو بحال کیا جا سکے۔
راہل گاندھی کے اس دورے نے عوامی سطح پر بہت زیادہ توجہ حاصل کی ہے اور ان کی سیاسی حکمت عملی کی جانچ کی جا رہی ہے۔ ان کے بیانات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بی جے پی کی حکومت کی ناکامیوں کو اجاگر کرنے کے لیے پرعزم ہیں اور عوامی آراء کو متوجہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
آگے کا راستہ اور اثرات
یہ تمام واقعات اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ بھارتی سیاست میں انتخابات کا وقت ہمیشہ ہنگامہ خیز رہتا ہے۔ راہل گاندھی کا عزم واضح ہے کہ وہ جمہوری عمل کو مضبوط کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ عوامی رد عمل اور بی جے پی کے رد عمل سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ آئندہ دنوں میں سیاسی تنازعات مزید بڑھنے والے ہیں۔
اس صورتحال کے پیش نظر یہ کہنا درست ہوگا کہ آئندہ کی سیاست میں یہ الزامات اور جوابی الزامات ایک اہم کردار ادا کر سکتے ہیں، خاص طور پر جب انتخابات قریب ہوں۔ کیا راہل گاندھی کے ثبوت واقعی عوام کو متوجہ کر پائیں گے یا یہ صرف ایک سیاسی چال ہوگی؟ یہ سوالات اس وقت قوم کے سماج میں گونج رہے ہیں۔
اس کے ساتھ ہی، یہ دیکھنا بھی دلچسپ ہوگا کہ بی جے پی کس طرح ان چیلنجز کا سامنا کرتی ہے اور کیا وہ راہل گاندھی کے الزامات کا مؤثر جواب دے پائے گی۔
اس پوری صورتحال نے نہ صرف رائے بریلی بلکہ پورے ملک میں ایک نئی سیاسی بحث کا آغاز کر دیا ہے۔ اس بات کے امکانات ہیں کہ آئندہ دنوں میں یہ موضوع مزید گہرائی میں جائے گا اور اس کے اثرات ملک کی سیاسی صورت حال پر پڑیں گے۔