بھارتی عوام کے لیے نئی ووٹر فہرست کی نئے قواعد و ضوابط پر ہنگامہ خیز بحث
بہار میں جاری خاص ووٹر نظرثانی مہم کے دوران، ووٹروں سے ان کی شہریت کی تصدیق کے لیے اضافی دستاویزات طلب کی جا رہی ہیں، خاص طور پر ان افراد سے جو 2003 کی ووٹر لسٹ میں شامل نہیں تھے۔ یہ اقدام ملک میں سیاسی تنازعات کا باعث بن رہا ہے، جس میں مختلف اپوزیشن جماعتیں حکومت پر الزام لگا رہی ہیں کہ وہ قومی شہری رجسٹر (NRC) جیسے عمل کو بغیر کسی باضابطہ اعلان یا پارلیمانی بحث کے خاموشی سے نافذ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
اس نئے نظام کے تحت، بھارتی الیکشن کمیشن (ECI) نے شہریت ایکٹ 1955 کے تحت ووٹروں کو تین مختلف زمروں میں تقسیم کیا ہے۔ جن میں:
1. **یکم جولائی 1987 سے پہلے پیدا ہونے والے افراد**: ان افراد کو اپنی تاریخ پیدائش یا جائے پیدائش کا ثبوت دینا لازمی ہوگا۔
2. **یکم جولائی 1987 سے 2 دسمبر 2004 کے درمیان پیدا ہونے والے افراد**: ان کو اپنے ذاتی دستاویزات کے ساتھ والد یا والدہ میں سے کسی ایک کا ایسا ہی ثبوت پیش کرنا ہوگا۔
3. **2 دسمبر 2004 کے بعد پیدا ہونے والے افراد**: ان کو والد اور والدہ دونوں کے دستاویزات فراہم کرنا ضروری ہوگا۔
یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ 2003 میں ووٹر لسٹ کی نظرثانی کے دوران ایسی شہریت کی جانچ نہیں کی گئی تھی۔ اُس وقت محض ووٹر لسٹ اور فوٹو شناختی کارڈ کے درمیان فرق کو درست کیا گیا تھا۔
قابل قبول دستاویزات کی تفصیلات
مبینہ طور پر، قابل قبول دستاویزات کی فہرست میں وہ دستاویزات شامل ہیں جو کسی مرکزی یا ریاستی حکومت یا پبلک سیکٹر ادارے کے ملازم یا پنشن یافتہ شخص کو جاری کردہ شناختی کارڈ یا پنشن آرڈر پر مشتمل ہیں۔ اس کے علاوہ، حکومت یا مقامی ادارے کی طرف سے جاری کردہ کوئی بھی شناختی کارڈ، پیدائش کا سرٹیفکیٹ، پاسپورٹ، یا کسی تسلیم شدہ بورڈ یا یونیورسٹی کی جانب سے جاری کردہ تعلیمی سند بھی شامل ہیں۔
یہ تمام اقدامات حکومت کے لیے اپنے انتخابی مقاصد کو پورا کرنے کی ایک کوشش کے طور پر دیکھے جا رہے ہیں۔
اپوزیشن کا ردعمل
اپوزیشن جماعتوں نے اس فیصلے کی شدید مذمت کی ہے۔ ان کا یہ کہنا ہے کہ یہ اقدامات کمزور طبقات جیسے اقلیتوں، دلتوں، مہاجرین اور اقتصادی طور پر کمزور افراد کو ووٹ کے حق سے محروم کرنے کے لیے ایک سازش ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ بغیر کسی عوامی مباحثے یا پارلیمانی منظوری کے ایسے دستاویزات مانگنا عام شہریوں پر بلاوجہ کا بوجھ ڈالنے کے مترادف ہے۔
ناقدین کا مزید کہنا ہے کہ یہ عمل آسام میں ہوئے NRC کی مانند ہے، جہاں لاکھوں افراد کو شہریت ثابت کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
بہار اسمبلی انتخابات کے تناظر میں سیاسی اثرات
بہار اسمبلی انتخابات کے قریب آنے کے ساتھ ہی یہ فیصلہ اب ایک بڑی سیاسی ہلچل کا باعث بن چکا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اقدام ووٹروں کو تقسیم کرنے اور مخصوص طبقات کے ووٹنگ کے حق کو دبانے کی ایک سوچی سمجھی کوشش ہو سکتی ہے۔ اپوزیشن جماعتیں شفافیت، وضاحت، اور انتخابی وقت کے دوران ایسے کسی بھی عمل کو فوری طور پر معطل کرنے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ ایسے نازک معاملے جیسے شہریت کو انتخابی عمل سے نہیں جوڑنے کی بات کر رہے ہیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو ریاست میں سیاسی اور سماجی بدامنی پیدا ہونے کی توقع کی جا سکتی ہے۔
حکومتی موقف
بہار کی حکومت کی جانب سے اس معاملے پر کوئی باقاعدہ جواب نہیں دیا گیا ہے، حالانکہ ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق، حکومت اس بات پر زور دے رہی ہے کہ یہ اقدامات ووٹر کی شناخت کو بہتر بنانے کے لیے ہیں۔
یہ بھی قابل ذکر ہے کہ اس معاملے پر میڈیا کی کئی رپورٹس شائع ہو چکی ہیں۔ جیسے کہ[The Indian Express](https://indianexpress.com/) نے اس معاملے پر تفصیلی تجزیے پیش کیے ہیں۔
مزید یہ کہ، حکومت کی جانب سے مطلع کیے بغیر اس نئے نظام کے تحت ووٹروں سے اضافی دستاویزات طلب کرنا سیاسی جماعتوں کے درمیان نئے تنازعات کو جنم دے سکتا ہے۔
متوقع نتائج اور آگے کا راستہ
یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ نیا نظام کیسا اثر ڈالے گا۔ لیکن اگر اپوزیشن کی طرف سے بلند کیے گئے خدشات کو مدنظر رکھا جائے تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ اس طرح کے اقدامات کی وجہ سے عوامی مخالفت جنم لے سکتی ہے۔
بہرحال، یہ تمام معاملہ ایک ایسے وقت میں ہورہا ہے جب بھارت میں 2024 کے انتخابات کی تیاری جاری ہے، اور ایسے شواہد مل رہے ہیں کہ حکومت کی جانب سے اس طرح کے انتظامات سیاسی مقاصد کے لیے کیے جا رہے ہیں۔
ڈس کلیمر
ہم نے ہر ممکن کوشش کی ہے کہ اس مضمون اور ہمارے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر فراہم کردہ معلومات مستند، تصدیق شدہ اور معتبر ذرائع سے حاصل کی گئی ہوں۔ اگر آپ کے پاس کوئی رائے یا شکایت ہو تو براہ کرم ہم سے info@hamslive.com پر رابطہ کریں۔

