موبائل فون میں ’سنچار ساتھی‘ ایپ لازمی قرار، سرکاری احکام پر حزب اختلاف برہم

سائبر سیکیورٹی کا سرکاری دعویٰ یا ریاستی نگرانی کا...

ہند-نیپال سرحد سے 6 ماہ میں 100 خواتین غائب: انسانی اسمگلنگ کا شبہ

ہند-نیپال سرحد سے گزشتہ 6 ماہ میں تقریباً 100...

دہلی ہائی کورٹ کا طلاق کا فیصلہ: شادی میں اعتماد کی اہمیت پر زور

دہلی ہائی کورٹ نے طلاق کے مقدمے میں فیصلہ...

الٹی ہو گئیں سب تدبیریں: بہار کے انتخابی نتائج کا سیاسی متن و حاشیہ

بہار اسمبلی انتخابات 2025، این ڈی اے کی غیر...

دہلی دھماکے کے بعد سیکیورٹی کے سخت انتظامات، شہریوں کے تعاون کی ضرورت

دہلی دھماکے کے بعد شہر بھر میں سیکیورٹی ہائی...

ایران اور اسرائیل کے بیچ جنگ کی نئی شدت، ہسپتال پر حملہ عالمی اصولوں کی سنگین خلاف ورزی

عالمی قوانین کی پامالی: ایران کا اسرائیل کے خلاف تازہ ترین اقدامات

ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری جنگ میں حالیہ دنوں میں ایک اہم واقعہ پیش آیا ہے: اسرائیل میں واقع ایک ہسپتال پر حملہ۔ اس واقعے نے بین الاقوامی سطح پر بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی بحث کو جنم دیا ہے۔ یہ حملہ اس وقت ہوا جب دنیا بھر میں یہ سوال اٹھ رہا تھا کہ آیا جنگی اصولوں کی پاسداری کی جا رہی ہے یا نہیں۔ یہ صورتحال ایک بار پھر یہ بات واضح کرتی ہے کہ جنگ کے میدان میں انسانی زندگیوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے حوالے سے عالمی اصولوں کی ضرورت کتنی اہم ہے۔

کیا ہوا؟ کس نے کیا؟ کہاں ہوا؟ کب ہوا؟ کیوں ہوا؟ اور کیسے ہوا؟

ایران کی فوج نے ایک اسرائیلی ہسپتال پر دھاوا بول کر دنیا کو حیران کر دیا۔ یہ حملہ دراصل ایک ایسے وقت میں ہوا جب اسرائیل اپنی فوجی کارروائیوں میں تیزی لا رہا تھا، خاص طور پر غزہ اور مغربی کنارے میں۔ اسرائیل کی فضائی بمباری نے ہزاروں بے گناہ شہریوں کی جانیں لی ہیں، جس کے نتیجے میں انسانی حقوق کی تنظیموں اور عالمی اداروں نے اسرائیل کی کارروائیوں کی مذمت کی تھی۔ انسانیت کے بحران کے اس وقت میں، ایران نے retaliatory action (جوابی کارروائی) کے تحت ہسپتال پر حملہ کیا، جس نے عالمی برادری میں ایک نئی بحث چھیڑ دی۔

یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ یہ حملہ ایران کی حکمت عملی کا حصہ تھا یا محض ایک جذباتی ردعمل۔ اس کا اصل مقصد کیا تھا، یہ بھی ایک اہم سوال ہے۔ اگرچہ ایران کا دعویٰ ہے کہ یہ کارروائی اسرائیلی فوجی تنصیبات کو نشانہ بنا کر کی گئی تھی، لیکن ہسپتال کا انتخاب اس بات کو متنازعہ بناتا ہے کہ آیا یہ ایک اصولی فیصلہ تھا یا کسی اور مقصد کے لئے کیا گیا۔

بین الاقوامی پالیسی: اسرائیل کی جارحیت کا جواب

ایران اور اسرائیل کے درمیان یہ نئی متنازعہ صورتحال ان دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کی ایک نئی لہر کو جنم دیتی ہے۔ اسرائیل کی جارحیت کی پالیسی نے دنیا کے کئی ممالک کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ خاص طور پر جب اسرائیل نے اپنے ہدف میں شہریوں اور انسانی ہمدردی کی تنظیموں کو نشانہ بنایا، تو یہ طریقہ کار بین الاقوامی قوانین کے خلاف ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی بمباری کے نتیجے میں جو بے گناہ جانیں ضائع ہوئی ہیں، وہ اس بات کی دلیل ہیں کہ اسرائیل کی دفاعی حکمت عملی میں اخلاقیات کا کوئی خیال نہیں رکھا گیا۔ لہذا، ایران کی جانب سے کیا گیا یہ حملہ صرف اسرائیل کی دفاعی پالیسی کے جواب میں نہیں بلکہ عالمی برادری کی جانب سے اسرائیل کی جارحانہ کارروائیوں کی بے حسی کا بھی مظہر ہے۔

اسلامی اصولوں کے تحت جنگی اخلاقیات

اس حملے کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ اسلامی جنگی اصولوں کے مطابق شہریوں، ہسپتالوں اور دیگر غیر عسکری مقامات کو نشانہ بنانا سختی سے منع ہے۔ ایران جیسے اسلامی ملک کی جانب سے ہسپتال پر حملہ ایک جانب جہاں انسانی حقوق کی پامالی کا باعث بنتا ہے، وہاں دوسری جانب یہ ان اسلامی اصولوں کی بھی خلاف ورزی ہے جو جنگی اخلاقیات کے تحت شہریوں کی حفاظت کو ملتزم کرتے ہیں۔

اگرچہ ایران نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ یہ حملہ غیر عسکری مقامات کو نشانہ بنانے کے بجائے فوجی تنصیبات کا ہونا تھا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہسپتال جیسے حساس اداروں کو نشانہ بنانا نہ صرف اخلاقی بلکہ قانونی طور پر بھی غلط ہے۔ اگر یہ حملہ دانستہ طور پر ہسپتال کو نشانہ بنا کر کیا گیا ہے تو یہ ایک ایسی قسم کی کارروائی ہے جس کی پوری دنیا میں شدید مذمت کی جائے گی۔

دوسری طرف: اخلاقی و قانونی پیچیدگیاں

ایران کی اس کارروائی کے دفاع میں بعض لوگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ اسرائیل بھی اپنے فوجی بنیادی ڈھانچے کو شہری آبادیوں کے درمیان چھپاتا ہے۔ اس حکمت عملی کی وجہ سے عام شہریوں کی جانیں خطرے میں آتی ہیں۔ اگر یہ بات درست ہے کہ اسرائیل نے اپنے عسکری مقامات کو ہسپتال کے قریب قائم کیا ہے، تو ایک قسم کی اخلاقیات کے معیارات متاثر ہوتے ہیں۔ اگر ایرانی فوج نے واقعی اس ہسپتال کو ایک فوجی ٹھکانے کے طور پر دیکھا ہے تو اس عمل کی وضاحت کرنا ضروری ہو گا۔

ایران کی حکمت عملی میں ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ وہ یہاں ایک سخت موقف اپناتے ہوئے خود کو ایک اصولی اور مظلوم ریاست کے طور پر ثابت کرنا چاہتا ہے۔ اس کے لئے ایران کی جانب سے احتیاط کی ضرورت ہے تاکہ وہ عالمی رائے عامہ میں ایک پیشہ ورانہ رویے کا مظاہرہ کر سکے۔

عالمی ایجنڈا: امن کی تلاش

یہ جنگ اگر بڑھتی گئی تو اس کا اثر صرف اس خطے تک ہی محدود نہیں رہے گا بلکہ پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ اس تناظر میں عالمی قوتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ محض بیان بازی کی بجائے ایک واضح اور منصفانہ حکمت عملی اپنائیں۔ اس کے ساتھ ہی، دونوں ممالک کو اپنے جانی نقصان اور معاشرتی اثرات کے تقاضوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

ایران کو چاہیے کہ وہ عالمی برادری کے سامنے خود کو ایک اصولی اور مہمان نواز ریاست کے طور پر پیش کرے۔ اسی طرح اسرائیل کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے جارحانہ طرز عمل کو ترک کرتے ہوئے امن کی راہ اختیار کرے۔

ایران اور اسرائیل کی اس کشیدگی نے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ عالمی جنگی اصولوں کی پاسداری کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ وقت آگیا ہے کہ تمام فریقین اس جانب توجہ دیں تاکہ انسانی زندگیوں کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔

ڈس کلیمر
ہم نے ہر ممکن کوشش کی ہے کہ اس مضمون اور ہمارے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر فراہم کردہ معلومات مستند، تصدیق شدہ اور معتبر ذرائع سے حاصل کی گئی ہوں۔ اگر آپ کے پاس کوئی رائے یا شکایت ہو تو براہ کرم ہم سے info@hamslive.com پر رابطہ کریں۔