پیگاسس معاملہ: کیا مودی حکومت جواب دے گی؟
پیگاسس اسپائی ویئر کے معاملے نے ایک بار پھر ہندوستانی سیاست کو گرم کر دیا ہے۔ کانگریسی رہنما رندیپ سنگھ سرجے والا نے یہ سوالات اٹھائے ہیں کہ مودی حکومت کو اس معاملے میں جواب دینا ہوگا۔ حال ہی میں امریکہ کی عدالت نے اسرائیلی کمپنی این ایس او گروپ کو قصور وار قرار دیا ہے، جس کے بعد سرجے والا نے حکومت پر شدید تنقید کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ عدالت کے فیصلے کے بعد یہ واضح ہو گیا ہے کہ ہندوستان میں کچھ 300 واٹس ایپ نمبروں کو ہدف بنایا گیا تھا۔
یہ معاملہ نئے سوالات کو جنم دیتا ہے: یہ 300 نمبروں کے مالکان کون ہیں؟ کیا ان میں کوئی مرکزی وزیر، اپوزیشن رہنما، آئینی افسر، صحافی یا کاروباری شخص شامل ہے؟ سرجے والا نے حکومت سے یہ سوالات کیے ہیں کہ یہ معلومات کس طرح حاصل کی گئی اور اس کا استعمال کیا گیا؟ کیا موجودہ حکومت میں کسی بھی مجرمانہ معاملے کے تحت ان ایجنسیوں کے خلاف کارروائی ہوگی؟
پیگاسس کی حقیقت: ایک مہلک ہتھیار
سرجے والا نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ‘ایکس’ پر کہا کہ پیگاسس اسپائی ویئر کی موجودگی ایک بدعنوانی کا ثبوت ہے۔ یہ ایک ایسا ہتھیار ہے جس کا استعمال لوگوں کی پرائیویسی کو ختم کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ واٹس ایپ کی جانب سے 2019 میں این ایس او گروپ پر مقدمہ دائر کیا گیا تھا جب یہ انکشاف ہوا کہ آن لائن ہیکنگ کے ذریعے 1400 لوگوں کا فون ہیک کیا گیا تھا۔ اس کے بعد سے یہ معاملہ مختلف عدالتوں میں چل رہا ہے، لیکن سرجے والا کے سوالات نے اس معاملے کی شدت کو بڑھا دیا ہے۔
سرجے والا کے اہم سوالات
رندیپ سنگھ سرجے والا نے مزید سوالات کیے کہ کیا سپریم کورٹ اس معاملے میں مداخلت کرے گا؟ کیا عدالت امریکہ کی عدالت کے فیصلے پر غور کرے گی؟ انہوں نے یہ بھی پوچھا کہ کیا سپریم کورٹ 2021 میں پیش کی گئی رپورٹ کو عوامی کرے گا؟ سرجے والا کے سوالات اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہیں کہ یہ معاملہ صرف ایک ٹیکنیکی مسئلہ نہیں بلکہ ایک بڑے سیاسی بحران کی طرف بڑھ رہا ہے۔
معاملہ 2019 سے جڑا ہوا ہے، جب واٹس ایپ نے پہلی بار این ایس او گروپ پر اٹیک کیا تھا۔ یہ سوالات اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ یہ معاملہ ایک بڑی سیاسی دھماکے کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ سرجے والا نے اپنی بات چیت میں کہا کہ "یہ معاملہ عوامی مفاد میں ہونا چاہئے۔”
حکومت کا ردعمل
اب تک مودی حکومت کی جانب سے اس معاملے پر کوئی واضح جواب نہیں آیا ہے۔ اس معاملے کو دیکھتے ہوئے کئی لوگ اب یہ سوچ رہے ہیں کہ آخرکار حکومت کو اس کی وضاحت کب دینا ہوگی۔ کیا اس معاملے کی کوئی منصفانہ تحقیقات ہوں گی، یا یہ صرف ایک سیاسی الزام تراشی کا معاملہ بن کر رہ جائے گا؟ اس بات کی تحقیقات ضروری ہیں کہ ان 300 نمبروں کے پیچھے کون لوگ ہیں اور ان کے ساتھ کیا ہوا تھا۔
بھارتی سیاست میں یہ ایک نازک موڑ ہے۔ کانگریس کی طرف سے اٹھائے گئے سوالات حکومت کے لیے ایک چیلنج بن سکتے ہیں۔ اگر حکومت نے اس معاملے کو سنجیدگی سے نہ لیا تو عوامی رائے میں مزید منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
نیٹ ورک کا اثر
اس معاملے کے تناظر میں یہ جیسے جیسے آگے بڑھتا جاتا ہے، عوامی حلقوں میں بحث و مباحثے کا سلسلہ جاری ہے۔ کئی سماجی کارکن اور صحافی بھی اس معاملے کی جانب توجہ دلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ، ایسی کئی تنظیمیں ہیں جو حکومت سے مطالبہ کر رہی ہیں کہ وہ اس معاملے کو سنجیدگی سے لے اور عوام کو اطمینان فراہم کرے۔
عوامی ردعمل
سوشل میڈیا پر بھی اس معاملے پر کافی بحث ہو رہی ہے۔ عوامی رائے میں اس معاملے کا سیاسی اثرات پر گفتگو کی جا رہی ہے۔ کچھ لوگ اسے ایک سیاسی اسکینڈل قرار دے رہے ہیں، جبکہ دوسروں کا خیال ہے کہ یہ ایک سنجیدہ معاملہ ہے جس کا اثر ملکی سلامتی پر پڑ سکتا ہے۔
سرجے والا کی اپیل
سرجے والا نے اپنے بیان میں حکومت سے یہ بھی درخواست کی ہے کہ وہ اس معاملے میں عوام کے سامنے شفافیت لائے۔ انہوں نے کہا "ہندوستانیوں کے حقوق کی حفاظت کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے، اور کسی بھی غیر قانونی سرگرمی کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔”
معلومات کی ترسیل
ایسا لگتا ہے کہ یہ معاملہ عوامی اطمینان کے لیے ایک ٹیسٹ کیس بن چکا ہے۔ جیسے جیسے مزید معلومات سامنے آتی ہیں، یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ حکومت اس معاملے کو کن طریقوں سے ہینڈل کرتی ہے اور آیا کہ مودی حکومت عوامی اعتماد کو بحال کرنے میں کامیاب ہوگی یا نہیں۔
ہندوستان کے موجودہ حالات میں یہ معاملہ ایک سنگین مسئلہ بن گیا ہے جس کو ہلکا نہیں لیا جا سکتا۔ اپوزیشن کے رہنماؤں نے حکومت کے خلاف صف آرا ہو گئے ہیں، اور اگر حکومت نے اس معاملے کا سنجیدہ نوٹس نہ لیا تو اس کے سیاسی اثرات آنا شروع ہو جائیں گے۔
یہ معاملہ مزید کام کی ضرورت رکھتا ہے اور اگر عوام کو اطمینان نہیں ملا تو یہ معاملہ سیاسی منظر نامے میں ایک بڑا طوفان پیدا کر سکتا ہے۔

