مہاراشٹر کے کسانوں کی حالت زار: صرف 6 روپے کا معاوضہ اور حکومت کا مذاق

 مہاراشٹر کے کچھ کسانوں نے حال ہی میں ایک...

بہار میں تبدیلی کا وعدہ: لالو خاندان کی عوام سے ووٹنگ کی اپیل

پرانے چہرے، نئے خواب: بہار اسمبلی انتخابات میں لالو...

کیرالہ میں غربت کے خاتمے پر چین کے سفیر نے دی مبارکباد

کیرالہ کی حکومت نے انتہائی غربت کے خاتمے میں...

اندرا گاندھی کو کانگریس کا خراجِ تحسین: مسز گاندھی کی یادیں تاریخ کو زندہ کرتی ہیں

کانگریس نے ’شکتی استھل‘ پر اندرا گاندھی کی جدوجہد...

جے این یو میں تشدد کا واقعہ: طلبہ گروپوں کے درمیان جھڑپ کی حقیقت

دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو)...

بھارت: نمازکے لیے بس روکنے پر معطل کنڈکٹر نے خودکشی کرلی

پولیس کا تاہم کہنا ہے کہ موہت یادو نے خودکشی نہیں کی ہے بلکہ وہ ریلوے لائن پار کرنے کے دوران ٹرین کی زد میں آکر ہلاک ہو گئے۔ سرکاری ریلوے پولیس (جی آر پی) کے ایک افسر اروند کمار نے بتایا کہ انہیں اترپردیش کے مین پوری میں ریلوے لائن پر ایک لاش کی موجودگی کی اطلاع موصول ہوئی۔ "جب پولیس جائے وقوعہ پر پہنچی تو متوفی کا فون بج رہا تھا۔ ہم نے فون اٹھایا جس کے بعد ہمیں اس کی شناخت کا علم ہوا۔ اس دوران مقامی لوگ وہاں پہنچ گئے اور لاش کی شناخت کی۔ اس کے گھروالوں نے تحریر دی ہے کہ وہ ریلوے لائن پار کرنے کے دوران ٹرین کی زد میں آگیا۔ اس معاملے کی انکوائری کی جارہی ہے۔”

دوسری طرف 32 سالہ موہت یادو کے گھر والوں کا کہنا ہے کہ جب انہیں ملازمت سے برطرف کیا گیا اس کے بعد سے ہی وہ شدید ذہنی اور مالی دباو میں تھے۔ اور انہوں نے ٹرین کے آگے کود کر اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا۔

موہت کے عم زاد ٹنکو یادو نے بتایا کہ موہت کا خیال تھا کہ انہیں ملازمت سے بلا وجہ ہٹایا گیا۔ موہت کی بیوہ رنکی کا کہنا ہے کہ "میرے شوہر گھر میں سب سے بڑے تھے اور پورے کنبے کی ذمہ داریاں انہیں کے کندھوں پر تھی۔ لیکن جب سے ان کی نوکری گئی اس کے بعد سے ہی ڈپریشن میں چلے گئے اور بالآخر خودکشی کرلی۔”

رنکی نے مزید بتایا کہ موہت اتوار کے روز یہ کہہ کر گھر سے نکلے تھے کہ وہ اپنے ایک دوست سے ملاقات کے لیے جا رہے ہیں لیکن پیر کے روز ہمیں ریلوے لائن کے نزدیک ان کی لاش پڑی ہونے کی اطلاع ملی۔ یہ جگہ گھر سے کوئی ایک کلومیٹر دور ہے۔

موہت یادو اترپردیش ریاستی ٹرانسپورٹ کارپوریشن میں پچھلے دس سال سے بس کنڈکٹر کے طورپر کانٹریکٹ پر ملازم تھے۔ جون کے اوائل میں ایک ویڈیو وائرل ہونے کے بعد انہیں اور بس ڈرائیور کے پی سنگھ کو ملازمت سے معطل کردیا گیا تھا۔ اس ویڈیو میں ایک مسافر کو موہت سے تکرار کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے، جسے ستیندر نامی ایک مسافر نے سوشل میڈیا پر ڈال دیا تھا۔

مسافر اس بات پر مشتعل تھا کہ دو مسلمانوں کو نماز پڑھنے کے لیے بس کیوں روکی گئی۔ جب کہ موہت کا کہنا تھا کہ بس میں سوار ہونے سے پہلے ہی یہ بات طے ہوگئی تھی اور جب دیگر مسافروں نے رفع حاجت کے لیے بس روکنے کے لیے کہا اسی دوران دونوں مسلم مسافرو ں نے اپنی نماز ادا کرلی۔ اور اس میں آخر کیا قباحت ہے؟

اس ویڈیو کے وائرل ہونے کے بعد بھارت میں مذہبی بنیادوں پر کشیدگی اور اختلافات کی بحث ایک بار پھر شروع ہو گئی۔ خیال رہے کہ اتردیش میں یوگی ادیتیہ ناتھ کی قیادت والی بی جے پی حکومت پر مذہبی بنیادوں پر تفریق کے الزامات عائد ہوتے رہے ہیں۔

اترپردیش ریاستی ٹرانسپورٹ کارپوریشن ملازمین یونین کا کہنا ہے کہ ایک معمولی واقعے کی بنیاد پر موہت یادو اور کے پی سنگھ کے خلاف کی گئی کارروائی کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے۔ ان دونوں کو برطرف کرنے کی کارروائی جلدبازی میں کی گئی۔ موہت نے ملازمت بحال کرنے کی درخواست بھی دی تھی لیکن اس پر اب تک کوئی فیصلہ نہیں ہوا ہے۔

کارپوریشن کے اسسٹنٹ ریجنل منیجر سنجیو سریواستو کا تاہم کہنا ہے کہ موہت یادو اور کے پی سنگھ کو کے خلاف انکوائری کے بعد ہی کارروائی کی گئی۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ موہت نے دوبارہ ملازمت کی درخواست دی ہے اور "درخواست کمیٹی کے زیر غور ہے۔”