بہار اسمبلی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں آج 122 نشستوں پر ووٹنگ

این ڈی اے اور مہاگٹھ بندھن کے درمیان سخت...

مہاراشٹر کے کسانوں کی حالت زار: صرف 6 روپے کا معاوضہ اور حکومت کا مذاق

 مہاراشٹر کے کچھ کسانوں نے حال ہی میں ایک...

بہار میں تبدیلی کا وعدہ: لالو خاندان کی عوام سے ووٹنگ کی اپیل

پرانے چہرے، نئے خواب: بہار اسمبلی انتخابات میں لالو...

کیرالہ میں غربت کے خاتمے پر چین کے سفیر نے دی مبارکباد

کیرالہ کی حکومت نے انتہائی غربت کے خاتمے میں...

کیا کشمیری لکچرر کو ‘انتقاماً’ معطل کیا گیا؟ بھارتی سپریم کورٹ

بھارتی سپریم کورٹ نے پیر کو بھارت کے اٹارنی جنرل کو ہدایت دی کہ وہ جموں و کشمیر کے لیفٹننٹ گورنر منوج سنہا سے بات کریں اور یہ معلوم کریں کہ کشمیر کے لکچرر ظہور احمد بھٹ کو آئین کی دفعہ 370 کی منسوخی کے خلاف بحث کرنے کے لیے عدالت میں پیش ہونے کے چند دنوں بعد کیوں معطل کیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ عدالت یہ جاننا چاہتی ہے کہ آیا معطلی کا تعلق لکچرر کی عدالت میں پیشی سے ہے اور اشارہ دیا کہ اگر ایسا ہوا ہے تو اسے منظور نہیں کیا جاسکتا۔ عدالت کے اس بیان سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ وہ اس اقدام کو "انتقام” کے طور پر دیکھ سکتی ہے۔

ظہور احمد بھٹ گزشتہ ہفتے سپریم کورٹ کی اس بنچ کے سامنے پیش ہوئے تھے جو جموں و کشمیر کو خصوصی آئینی حیثیت دینے والے آئین کی دفعہ 370 کی منسوخی کے خلاف دائر اپیل پر سماعت کررہی ہے۔ وہ سری نگر کے جواہر نگر میں گورنمنٹ ہائر سیکنڈری اسکول میں پولیٹکل سائنس کے سینیئر لکچرر اور قانون کی ڈگری یافتہ ہیں۔

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ دفعہ 370 کو ختم کرنے کے خلاف دائر عرضی پر سماعت کرنے والی پانچ رکنی آئینی بنچ کے سربراہ ہیں۔ سپریم کورٹ میں پیش ہونے کے دو دن بعد جمعے کو جموں و کشمیر کے محکمہ تعلیم نے بھٹ کو جموں و کشمیر سول سروس ریگولیشنز، جموں و کشمیر گورنمنٹ ایمپلائز کنڈکٹ رولز اور جموں و کشمیر لیو رولز کے ضابطوں کی خلاف ورزی کرنے کا الزام لگاتے ہوئے ملازمت سے فوری طورپر معطل کرنے کا حکم جاری کیا۔

سیینئر وکیل کپل سبل نے اس نوٹس کو سپریم کورٹ کے علم میں لاتے ہوئے کہا، "جو استاذ یہاں آئے تھے اور چند منٹ کے لیے اپنے دلائل پیش کیے انہیں 25 اگست کو عہدے سے معطل کردیا گیا۔ حالانکہ انہوں نے دو دن کی باضابطہ چھٹی لی تھی اور پھر واپس چلے گئے تھے لیکن انہیں معطل کردیا گیا۔”

اس پر چیف جسٹس چندر چوڑ نے اٹارنی جنرل آر وینکٹ رمانی کو اس معاملے کو دیکھنے کی ہدایت دی۔ انہوں نے کہا،” مسٹر اٹارنی جنرل دیکھئے یہ کیا ہوا ہے۔ کوئی شخص عدالت میں حاضر ہوا تھا اور اب اسے معطل کردیا گیا… آپ لیفٹننٹ گورنر سے بات کریں۔”

چیف جسٹس چندر چوڑ نے مزید کہا،” اگر کچھ اور ہے تو الگ بات ہے لیکن عدالت میں حاضر ہونے اور اس کے فوراً بعد معطل کردیے جانے کی وجہ کیا ہے؟ سالسٹر جنرل توشار مہتا نے اس پر کہا کہ معطلی کی وجہ کچھ اور تھی۔ لیکن جب جسٹس ایس کے کول نے اس معطلی کے وقت کی طرف اشارہ کیا تو اعلیٰ حکومتی وکیل نے تسلیم کیا کہ "یہ یقینی طورپر مناسب نہیں تھا۔”

پانچ رکنی آئینی بنچ میں شامل ایک اور جج جسٹس بی آر گوائی کا کہنا تھا کہ حکومت کی کارروائی انتقامی کارروائی ہوسکتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا "اتنی آزادی کا مطلب ہی آخر کیا ہے….اگر صرف عدالت میں حاضر ہونے کی وجہ سے ایسا ہوا ہے تو واقعتاً یہ انتقام ہے۔”

خیال رہے کہ ظہور احمد بھٹ نے ذاتی نوعیت میں عدالت میں حاضر ہوکر پانچ منٹ کی اپنے دلائل پیش کیے تھے۔انہو ں نے عدالت کو بتایا تھا کہ اگست 2019 کے بعد سے، جب بھارت سرکار نے آئین کی دفعہ 370 کو منسوخ کردیا تھا، جموں و کشمیر میں طلبہ کو بھارتی سیاست کے بارے میں پڑھانا بہت مشکل ہو گیا ہے۔ ظہور احمد بھٹ کا کہنا تھا،” طلبہ یہ سوال پوچھتے ہیں کہ کیا ہم اب بھی جمہوریت ہیں؟”

انہوں نے دفعہ 370 کو ختم کرنے کے خلاف اپنے دلائل میں کہا تھا کہ یہ اقدام”بھارتی آئین کی اخلاقیات کی خلاف ورزی ہے۔ یہ اقدام وفاقیت اور آئین کی بالادستی کے بھی خلاف تھا۔ "