پولیس آفیسر ہونے کا دعویٰ کرنے والے چار افراد نے انیس الرحمن کے گھر میں گھس کر تین منزلہ عمارت سے نیچے پھینک دیا
کلکتہ: این آر سی اور شہری ترمیمی ایکٹ مخالف تحریک کا حصہ رہے عالیہ یونیورسٹی کے طالب علم انیس الرحمن کا ان کے آبائی گھر ہوڑہ کے آمتا میں پولیس کے لباس میں ملبوس چند افراد داخل ہوکر تین منزل عمارت سے گرا کر قتل کردیا گیا ہے۔ اس واقعے کے بعد آمتا کے جنوبی خان پاڑہ میں ہلچل مچ گئی ہے۔
انیس الرحمن نے حال ہی میں عباس صدیقی کی سیاسی جماعت آئی ایس ایف میں شمولیت اختیار کی تھی۔
پولیس ذرائع کے مطابق متوفی کی شناخت انیس خان (28) کے طور پر ہوئی ہے۔ پولیس کو دئیے گئے بیان میں اہل خانہ نے بتایا کہ پولیس کی وردی میں ملبوس چند افراد اس کے گھر میں تلاشی کے نام پر داخل ہوگئے اور پھر اس کے بیٹے کو تین منزل عمارت سے ڈھکیل دیا۔
دوسری جانب آمتا پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ پولیس کی کوئی بھی ٹیم انیس کے گھر نہیں گئی تھی۔ مگر سوال یہ ہے کہ پولیس کی وردی میں انیس کے گھر کون گیا تھا؟ آئی ایس ایف لیڈر مشتبہ حالت میں قتل کا معاملہ ایک معمہ بن گیا ہے۔
مقتول انیس کے اہل خانہ نے الزام لگایا کہ جمعہ کی رات پولیس کی وردی میں چار افراد گھر آئے۔ ان میں سے تین سیوک پولیس تھے اور ایک خاکی لباس میں تھا۔ خاکی لباس میں ملبوس پولیس آفیسر نے اپنی شناخت آمتا پولیس افسر کے طور پر کرائی۔ پہلے پولیس نے انیس کے والد کو حراست میں لے لیا۔ باقی سب انیس کے ساتھ تیسری منزل پر چلے گئے۔ اس کے بعد گھر والوں کو چھت سے کچھ گرنے کی آواز آئی تو دیکھا کہ انیس زمین پر گرے ہوئے ہیں۔
خاندانی ذرائع کے مطابق عالیہ یونیورسٹی کا طالب علم انیس الرحمن خان کلکتہ میں رہتا تھا۔ وہ تین روز قبل گھر واپس آیا تھا۔ وہ جمعہ کی شام محلے میں ایک پروگرام میں شرکت کی تھی۔ اس کے بعد وہ رات گئے گھر واپس آیا۔ گھر واپس آنے کے تھوڑی دیر بعد چار افراد گھر پہنچے۔
متوفی کے اہل خانہ کے مطابق چاروں میں سے ایک نے پولیس کی وردی پہن رکھی تھی لیکن باقیوں نے سیوک پولیس کے کپڑے پہن رکھے تھے رات کے ایک بج رہے تھے۔ وہ مبینہ طور پر دروازے کے سامنے کھڑے تھے، دروازے کو زور سے دھکا دے رہے تھے۔ جب انیس کے والد گیٹ کے سامنے آئے اور ان کی شناخت جاننا چاہی تو انہوں نے آمتا تھانے کی پولیس ہونے کا دعویٰ کیا۔ ان لوگوں نے کہا کہ وہ انیس الرحمن کو ڈھونڈنے آئے ہیں۔
جب گیٹ کھولا گیا تو انیس کے والد کومبینہ پولیس نے بندوق دکھا کر حراست میں لے لیا ۔بقیہ تین افراد گھر میں داخل ہوگئے۔ اس کے بعد وہ تیسری منزل جہاں انیس الرحمن سو رہے تھے۔ وہاں جاکر انیس کو دھکا دینے لگے۔ خاندان کا دعویٰ ہے کہ اسے تین منزلہ عمارت سے نیچے پھینک دیا گیا۔
انیس کے اہل خانہ نے دعویٰ کیا کہ تھوڑی دیر بعد جب وہ تینوں سیڑھیوں سے نیچے بھاگے تو پولیس کی وردی میں ملبوس شخص کو ‘سر’ کہا اور باقی تینوں نے کہا، ‘سر’، یہ ختم ہو گیا ہے۔ وہ جلدی سے گھر سے باہر نکل گئے۔ اس کے بعد گھر کے باقی افرادانیس کو اٹھا کر اسپتال پہنچایا مگر ڈاکٹروں نے مردہ قرار دیدیا۔
عالیہ یونیورسٹی کے طالب علم کے گھر والے بالکل نہیں سمجھ پا رہے ہیں کہ ان کے بیٹے کے ساتھ کیا ہوا ہے۔ تاہم انہوں نے مطالبہ کیا کہ کل رات آنے والوں کی پولیس یا کسی اور سے تفتیش کی جائے۔ وہ اپنے بیٹے کے قتل کا انصاف چاہتے ہیں۔
اہل خانہ کا دعویٰ ہے کہ انیس کا تعلق نیشنل رجسٹر آف سٹیزن (این آر سی) تحریک سمیت مختلف تحریکوں سے تھا۔ اہل خانہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ مختلف سیاسی سرگرمیوں میں شامل ہوتا تھا۔ حال ہی میں اس نے آئی ایس ایف میں شمولیت اختیار کی تھی۔ شاید اسی وجہ سے اس کا سیاسی قتل کیا گیا ہے۔

