ہم میں سے کئی لوگ آج ڈاکٹر، انجینئر ہیں، مدرس یا سیاسی و سماجی کارکن ضرور ہیں لیکن یہ ہماری ذاتی کامیابی ہے۔ اگر ہم صرف اپنی خوشی سے خوش ہوجائیں تو سمجھئے ہم بے حس ہوچکے ہیں۔ سرسید اسی بے حسی کے خلاف تھے۔ اخلاقیات کے مختلف پہلوؤں پر بھی سرسید احمد خان نے سیر حاصل بحث کی ہے تو سرسید ڈے کے دسترخوان پر اگر ہم اخلاق اور ادب کا مظاہرہ نہ کریں تو اس سے یقینا سرسید کے روح کو تکلیف ہوگی۔
آج 17 اکتوبر تاریخ کا اہم ترین دن ہے کیوں کہ آج ہی کے دن ایسی شخصیت کی پیدائش ہے جسے دنیا سرسید احمد خان کے نام سے جانتی ہے۔
سرسید احمد خان کی زندگی اور ان کے کارناموں پر ڈھیر ساری کتابیں چھپ چکی ہیں۔ ان پر لکھی گئی مختلف کتابیں سرسید احمد خان کی زندگی کے مختلف گوشوں پر روشنی ڈالتی ہیں۔ ان کی ادبی، سماجی، سیاسی اور تعلیمی خدمات کے ساتھ ساتھ ان کی فکری بصیرت اور دانشورانہ صلاحیت ان کی زندگی کے کئی اہم گوشے ہیں۔
ہم جب بھی سرسید احمد خان کی بات کرتے ہیں تو عام طور پر تعلیم کے میدان میں ان خدمات کا تذکرہ خاص طور پر کرتے ہیں، حالانکہ سرسید احمد خان کی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے، اور آج آپ کی یوم پیدائش کے موقعہ پر ان کی زندگی کے دوسرے پہلوؤں پر اپنی معلومات کو شیئر کرنے کی کوشش کروں گا۔
سرسید کا اردو شاعری کے مزاج کو بدلنے پر زور
مثال کے طور پر مسلمانوں میں شعر و شاعری اور مشاعروں کو ہی کو لے لیجئے۔ انہوں نے اس زمانے میں اردو شاعری کے مزاج کو بدلنے پر زور دیا تھا۔ نہ صرف یہ بلکہ آسان نثر (easy prose) کے فروغ میں بھی عملی طور پر اہم رول ادا کئے تھے۔
انہوں نے جہاں مذہب اور مذہبی لوگوں پر کتابیں اور مضامین لکھے وہیں تاریخ اور سیاست جیسے اہم اور مشکل مضامین پر بھی بہت کچھ لکھا۔ آج لوگ پولیٹکس اور راجنیتی کو بڑی عجیب نظروں سے دیکھنے لگے ہیں، حالانکہ ہر فیلڈ اور ہر سبجیکٹ کی اپنی الگ اہمیت ہے۔ سیاست کو لوگ جتنا بھی برا بھلا کہہ لیں لیکن یہ بھی تو سچ ہے کہ ملک چلانے کے لئے ہمیں سیاست دانوں کی ضرورت ایسی رہتی ہے جن سے کبھی چھٹکارہ ممکن ہی نہیں۔ اور یہ سب باتیں سرسید احمد خان کی تحریروں میں واضح طور پر ملتی ہیں۔ اور ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسیٹی نے ملک اور میں جہاں ان گنت ڈاکٹر، انجینئر، سماجی و تعلیمی ماہرین، ریسرچ اسکالر پیدا کئے وہیں سیاسی رہنماؤں کی بھی ایک فوج ملک ملت کی خدمت کے لئے پیش کیا۔
آج کا میڈیا علی گڑھ مسلم یونیورسیٹی کو جس شکل میں بھی پیش کرے لیکن سچ یہ ہے کہ سرسید کی تعلیمات کی روشنی میں اے ایم یو نے ملک کی خدمت میں ایسا رول ادا کیا ہے جس کے ذکر کے بغیر ہندوستان کی کوئی بھی تاریخ نامکمل ہے۔
سرسید احمد خان کا ایک انتہائی اہم کارنامہ صحافت
یہاں میڈیا کی بات آئی تو اس بات کا تذکرہ بھی برمحل ہوگا کہ سرسید احمد خان کا ایک انتہائی اہم کارنامہ ان کی صحافت بھی ہے۔ در اصل صحافت ہی وہ ذریعہ تھا جس سے وہ عوام سے نہ صرف مخاطب ہوتے تھے بلکہ ان کے نظریات کی تشہیر میں بھی journalism نے نہایت اہم رول ادا کیا ہے۔
انہوں نے کئی میگزین اور اخبارات نکالے مگر تہذیب الاخلاق کی اشاعت ان کا وہ کارنامہ ہے کہ آج ایک صدی کے بعد بھی سر سید اور ان کے فکر کو سمجھنے میں معاون و مددگار ہے۔ تہذیب الاخلاق صرف ایک میگزین ہی نہیں تھا بلکہ علی گڑھ تحریک کا یہ ایک ہم حصہ بھی تھا۔ سرسید نے اس رسالے سے قوم کی تقدیر بدلنا چاہتے تھے۔ تہذیب الاخلاق جاری کرنے کے سلسلے میں انہوں نے محسن الملک کو ایک خط میں لکھا تھا جو خط سفرنامہ مسافران لندن (جسے شیخ اسمعیل پانی پتی نے ترتیب دیا تھا):
’’ایک اخبارخاص مسلمانوں کے فائدے کے لیے جاری کرنا تجویز کرلیا ہے اور تہذیب الاخلاق اس کا نام فارسی میں اور انگریزی میں محمڈن سوشل ریفارمر رکھ لیا ہے۔ اس کا منظر نامہ یہاں بہت خوبصورت کھدوالیا ہے، کاغذ بھی ایک برس کے لائق خرید لیا ہے۔‘‘
اس خط سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سرسید احمد خان تہذیب الاخلاق کی اشاعت کے لئے کس حد تک سنجیدہ تھے۔
سرسید احمد خان تہذیب الاخلاق کے ذریعے مسلمانوں کی سماجی اور سیاسی پسماندگی دور کرنا چاہتے تھے، انہوں نے خود اپنے مقاصد کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس پرچے میں صرف ایسے فائدہ مند مضامین چھاپے جائیں گے جو مسلمانوں سے متعلق ہیں اور جن مسائل کو عام طور پر دوسرے اخبار کور نہیں کرتے۔ ذرا غور کیجئے جہاں آج ہم میڈیا کی غلط رپورٹنگ اور yellow journalism سے پریشان ہیں اور اس بات کی ضرورت محسوس کر رہے ہیں کہ ہمارا اپنا میڈیا بھی ہونا چاہئے اس بات کے بارے میں سرسید احمد خان آج سے سو سال پہلے نہ صرف اشارہ کئے تھے بلکہ عملی طور پر اس پر کام بھی شروع کرچکے تھے۔
تہذیب الاخلاق کا مقصد مسلمانوں کے اندر اخلاق اور تہذیب کا جذبہ پیدا کرنا تھا۔ سرسید کا کہنا تھا کہ ترقی کے لئے جہاں کئی عوامل کام کرتے ہیں وہیں انسان کا اخلاق بلند ہونا بھی ضروری ہوتا ہے۔ یاد رکھیں جب تک ہمارا اخلاق بلند نہیں ہوگا ہم کسی کی مدد کرنے کے قابل نہیں ہوں گے۔ یہ ہمارا اخلاق ہی ہے جس کا مظاہرہ کرکے ہم دوسروں کی مدد کرتے ہیں، دوسروں کی ترقی سے نہ صرف خوش ہوتے ہیں بلکہ اس ترقی میں اپنا حصہ بھی لیتے ہیں۔
1857 کی پہلی جنگ آزادی
اگر ہم سرسید کے زمانے میں مسلمانوں کی زندگی کا مطالعہ کریں تو اندازہ ہوگا کہ مسلمان ہر میدان میں کافی پسماندہ تھے۔ مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد مسلمانوں کے طرز زندگی میں اور بھی گراوٹ آگئی تھی۔ 1857 کی پہلی جنگ آزادی (جسے بغاوت کے نام سے بھی جاتا ہے) اس میں مجاہدین آزادی کو انگریزوں کے ہاتھوں شکست ملی تھی۔ اس جنگ میں ہر مذہب اور ہر فرقے کے لوگوں نے حصہ لیا تھا۔ مگرخاص بات یہ ہے کہ انگریزوں نے اس بغاوت کو مسلمانوں سے جوڑ دیا تھا۔ اور اس کے نتیجے میں ہزاروں کی تعداد میں مسلمانوں کو شہید کردیا گیا تھا۔
سرسید احمد خان پر اس ہیبت ناک واقعہ کا گہرا اثر ہوا، یہی وجہ تھی کہ انہوں نے بغاوت کے چند برسوں بعد "اسباب بغاوت ہند” نام کی ایک کتاب لکھی تھی جس میں انہوں نے نہ صرف بغاوت کے وجوہات پر روشنی ڈالی بلکہ یہ ثابت بھی کیا کہ انگریزی حکومت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے بغاوت کی صورت پیدا ہوئی۔
بغاوت میں ناکامی اور مسلمانوں کے شہادت نے سرسید جیسے حساس شخص کو بے چین کردیا تھا۔ انہوں نے جب مسلمانوں کی زندگی کا گہرائی سے مطالعہ کیا تو انہیں یہ اندازہ ہوا کہ دراصل مسلمان کئی سطح پر پسماندہ ہیں۔
مسلمانوں کی لائف سٹال کو بہتر بنانے کے لیے انہوں نے تعلیم پر بہت زور دیا۔ ان کا خیال تھا کہ جب تک مسلمان تعلیم کے زیور سے آراستہ نہیں ہو جاتے ان کی زندگی نہیں بدل سکتی۔ تہذیب الاخلاق میں وہ لکھتے ہیں
"ہم اپنی قوم کو بارہا بتا چکے ہیں کہ جب تک مسلمان خود اپنی تعلیم کا بوجھ خود نہیں اٹھائیں گے اس وقت تک ان کی ذلت ختم نہیں ہوسکتی۔ اس طرح ہمارے قول کی تصدیق ہوچکی ہے اور جو رہی سہی عزت باقی ہے وہ جلد ختم ہونے والی ہے۔ قوم کی جو حالت ہو نے والی ہے وہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہے۔ اس سے ہمارے دل کو تکلیف ہوتی ہے۔ اسی لئے ہم نے مسلمانوں کے لیے مدرستہ العلوم کے قائم کرنے کا بوجھ اُٹھایا ہے، مگر بہت افسوس کے بہت کم لوگوں نے اس کے ساتھ ہمدردی کی… اے مسلمانوں دیکھو! وقت چلا جاتا ہے۔ گیا وقت پھر ہاتھ نہیں آتا۔ تم سب پر فرض ہے کہ مدرستہ العلوم کی تکمیل پر توجہ دیں۔ صرف اس کو روپے کی مدد درکار ہے۔ محنت کرنے والے موجود ہیں، ہمت کرو اور چندہ سے امداد کرو۔”
سر سید کے اس قول میں دو باتیں واضح طور پر دیکھی جاسکتی ہیں۔ اقتباس کے پہلے حصے میں تہذیب الاخلاق کی اشاعت کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے تو دوسرے حصے میں انہوں نے خطیبانہ اندازمیں ہر عوام سے مالی تعاون دینے کی بات کہی ہے۔
ہماری قوم کا تعلیم سفر میں ڈراپ آؤٹ شرح بہت زیادہ ہے۔ ہم میں سے کئی لوگ آج ڈاکٹر، انجینئر ہیں، جرنلسٹ یا سماجی کارکن ضرور ہیں، اس پر ہمیں خوشی بھی ہے لیکن یہ ہماری ذاتی اور عارضی خوشی ہے۔ اگر ہم صرف اپنی خوشی سے خوش ہوجائیں تو سمجھئے ہم بے حس ہوچکے ہیں۔ سرسید اسی بے حسی کے خلاف تھے۔ سرسید اپنی ذاتی زندگی میں نہ صرف اعلی پیمانہ کے تعلیم یافتہ تھے بلکہ ایک بے حد کامیاب شخص بھی تھے۔ لیکن ان کو اپنی کامیابی کی خوشی کم اور اپنے قوم کی بری حالت سے پریشانی زیادہ تھی۔ جب ہم اپنی کامیابیوں کی خوشیوں کا ڈھنڈورہ ایسے سماج میں پیٹتے ہیں جہاں ناکام لوگوں کا ایک جم غفیر موجود ہے تو یاد رکھئے ہم اپنی کامیابی کی خوشی کے ساتھ ساتھ ان ناکام اور بے روزگار لوگوں کا کہیں نہ کہیں مذاق بھی اڑاتے ہیں جنہیں ایک معمولی جاب بھی میسر نہیں ہے۔
ہمارے قوم کی تعلیمی حالت
ہمارے قوم کی حالت تعلیمی اعتبار سے خستہ ہے۔ ہمیں جہاں خوشی ہے کہ ان گنت فارغین علی گڑھ مسلم یونیورسیٹی تعلیم و ترقی کے مختلف میدان میں خدمت کر رہے ہیں ابھی اس بات کی اور زیادہ خوشی ہے کہ ہمارے درمیان اسی علی گڑھ مسلم یونیورسیٹی کے ان گنت ہونہار پیداوار ایک اسکول ٹیچر سے لے کر بیوروکریٹ اور ممبران اسمبلی و پارلیمنٹ بلکہ وزرا کی شکل میں موجود ہیں جو یقینا تعلیم کے میدان میں سرسید احمد خان کے اسی مشن کا ایک حصہ بن سکتے ہیں جس کا آغاز آج سے سو سال قبل علی گڑھ میں ہوا تھا۔
ہوسکتا ہے کہ بہت سے لوگوں کو سرسید احمد خان کی تعلیمی تحریک بظاہر مسلمانوں کی حالت کو بہتر کرنے کی نظر آتی ہو مگر حقیقت میں وہ بلا کسی تفریق مذہب و ملت ملک اور قوم کی ترقی کی خواہش رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ان کا تبادلہ 1885 میں غازی پور ہوا تو انہوں نے ہندو اور مسلم دونوں کے چندے سے ایک ماڈرن سٹائل کا اسکول قائم کیا۔ انہوں نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا کہ لوگوں کو اتحاد اور امن کے ساتھ رہنا چاہیے۔
سرسید کا خیال تھا کہ مسلمانوں کی ترقی تبھی ممکن ہے جب وہ اعلی تعلیم حاصل کریں، انہوں نے مشرقی علوم کے ساتھ ساتھ مغربی علوم کی حصولیابی پر زور دیا، یہی وجہ ہے کہ قیام لندن کے دوران انہوں نے کیمبرج یونیورسٹی کا دورہ کیا اور اور وہاں کے علمی ماحول سے متاثر ہوئے۔
سرسید احمد خان نے مشترکہ تہذیب اور قومیت پر بہت زور دیا ہے۔ تہذیب الاخلاق نکالنے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ سرسید اس رسالے سے مسلمانوں کے اندر قومیت (nationalism) کا جذبہ پیدا کرنا چاہتے تھے۔
سرسید احمد خان نے خود بھی اس نیشنلٹی پر زور دیا ہے، انہوں نے تہذیب کی ترقی اور مذہبی مسائل پر گفتگو کو اہم بتایا ہے۔ انہوں نے تعصب کو انسانی زندگی اور تہذیب و تمدن کا خسارہ بتایا ہے۔ سرسید احمد خان نے رسم و رواج، ہمدردی، آزادی رائے، بچوں کی تربیت، عورتوں کے حقوق، تعلیم، یہاں تک کے کھانے پینے اور اخلاقیات کے موضوع پر مضامین لکھا وہ دراصل مسلمانوں کو ایک مہذب اور مثالی قوم بنانا چاہتے تھے۔ اب ذرا سوچئے، اخلاقیات کے ان سارے پہلوؤں پر جب سرسید احمد خان نے بات کی ہے تو سرسید ڈے کے موقعہ پر ڈائننگ ٹیبل پر اگر ہم اخلاق اور ادب کا مظاہرہ نہ کریں تو اس سے یقینا سرسید کے روح کو تکلیف ہوگی۔

