یونیورسیٹی سیاست سے اپنی سرگرمیوں کا آغاز کرنے والے کنہیا کمار اور عمر خالد اپنے علیحدہ مقامات پر ہیں۔ ایک سیاسی رہنما بن چکا ہے تو دوسرا سلاخوں کے پیچھے ہے۔ دونوں میں فرق محض گناہ اور بے گناہی کا ہے یا کچھ اور؟
تحریر: مشتاق نوری
یہ کتنا عبرت ناک ہے اور افسوس ناک بھی کہ کنہیا اور عمر خالد ایک ہی یونیورسٹی کے ہونہار طالب علم رہے۔ دونوں میں سیاست اور روایت کے خلاف آواز اٹھانے کا حوصلہ بہت تھا۔ دونوں نے ساتھ ساتھ ملک کے سرد و گرم کا تجربہ کیا۔ بگڑتے سنورتے حالات سے بہت کچھ سیکھا بھی۔ ان کے انقلابی نعروں کے سبب سیاست کا پارا چڑھتا اترتا بھی رہا۔ حکومت کی ناراضگیاں بھی جھیلیں۔ جب جواہرلعل نہرو یونیورسیٹی میں میڈیا کے پروپیگنڈے کے سبب کنہیا ملزم بنے تو عمر بھی لپیٹ میں آئے۔ اس نے قدم قدم پر کنہیا کا ساتھ دیا۔
معتبر ذرائع کی مانیں تو عمر خالد کی صلاحیتیں کنہیا سے کئی اعتبار سے زیادہ ہیں۔ عمر کئی لحاظ سے کنہیا سے بیس ہی ہے۔ بس دونوں کے نام میں فرق ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا نام کے اسی فرق کے سبب دونوں کے حالات علیحدہ ہیں؟
کنہیا اسی باغیانہ تیور کے سہارے کمیونسٹ پارٹی کے ٹکٹ پر بیگوسرائے سے لوک سبھا الیکشن لڑے اور ہار بھی گئے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کے "اچھے دنوں” کا مذاق اڑاتے ہوئے خود اس کے اچھے دن آگئے۔ آج کانگریس کی گود میں جا بیٹھے۔
کنہیا کانگریس میں شامل
الیکشن ہارنے کے بعد جیسے دونوں کو ایک دوسرے کی ضرورت ہو۔ ایسا لگتا ہے کانگریس پہلے سے بانہیں پھیلائے کنہیا کی منتظر تھی۔ اپنی ڈوبتی نیا کو پار لگانے کے لیے جیسے راہ تک رہی تھی۔ راہل کی ناکامیوں نے تو کانگریس کی قبر ہی کھود دی تھی۔ اب وہ بھی کیا کرتی، کوئی تو چاہیے تھا جو اس کی سونی اجڑی مانگ میں پھر سے چٹکی بھر خوں رنگی سندور سجا دے۔ سو مل گیا۔
ادھر اقلیتی طبقہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی عام رائے کہ بے چارا عمر خالد صرف نام کی وجہ سے جیل میں سڑایا جارہا ہے۔ وہ بھی مبینہ ناکردہ گناہوں کی سزا۔ گناہ بے گناہی کی سزا کافی اذیت ناک ہوتی ہے۔ وہ ایسے جرم کی سزا بھگت رہا ہے جو طے ہی نہیں ہے جو اس نے کیا ہی نہیں۔ جسے آج کنہیا کی سطح کا لیڈر ہونا چاہیے وہ مبینہ طور پر محض اس لیے سلاخوں کے پیچھے دھکیلا گیا ہے کہ اس کا تعلق مذہب اسلام سے ہے۔ آج کنہیا کمار ترقی کی بلندیاں چھوتے جا رہے ہیں اور عمر خالد کو ٹھکانے لگانے کا سارا بندوبست کر دیا گیا ہے۔
یہ سیاست بھی بڑی عجیب چیز ہے۔ اپنی راہ کے روڑے کو کنارے لگانے سے دریغ نہیں کرتی۔ موجودہ سیاست میں وہ روڑا اگر مسلم نام والا ہے تو پہلی فرصت میں ٹھکانے لگایا جاتا ہے۔ یہ کتنا بھیانک ہے کہ آج کانگریس میں شامل ہو کر کنہیا اپنے سیاسی خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنے میں تقریبا کامیاب ہوگیا ہے۔ اور عمر خالد کو اپنی قسمت پر اپنی قوم کی بے حسی پر خون کے آنسو رونا پڑ رہا ہے۔
نجیب جے این یو سے غائب
ان دونوں کا ایک اور باشعور باغیرت دوست، نام تھا نجیب۔ یہ انقلابی جدوجہد کا مالک اور اقبال کا تراشا گیا شاہین تھا۔ مگر اسے یونیورسٹی کیمپس سے غائب کر دیا گیا۔ نجیب کی ماں ہاتھ میں کلیجہ رکھے در بدر انصاف کے لیے بھٹکتی رہیں۔ چیخنے والی ماں تھک ہار کر اب بیٹھ گئی ہیں۔ پکارتے پکارتے ان کی اواز ہی گلے میں روندھ گئی۔ نجیب اب تو شاید نہیں آ سکتا۔ مگر کیا عمر جیسوں کو بھی جانے دیا جاۓ؟
آج کوئی ایسا نہیں جو عمر کی خبر گیری کرے؟ ایسا لگتا ہے جیسے سب نے اس سے پلہ جھاڑ لیا ہو۔ جیسے سب دامن بچا رہے ہوں۔ یہاں تک کہ ایک ہی مادر علمی سے تعلق رکھنے والے کنہیا بھی نام لینے سے کتراتے نظر آتے ہیں کہ کہیں ہندو سماج کے ٹھیکیدار ناراض نہ ہو جائیں۔ کیا یہ سچ نہیں کہ آج ہر میڈیا چینل کنہیا کمار کو کوریج دے رہا ہے۔ ان کے بیانات کو کو من و عن نشر کر رہا ہے۔ مگر کیا کسی نے بھی عمر جیسے لوگوں کے خلاف ہو رہی زیادتی پر سوال اٹھایا؟ کبھی میڈیا نے مسلم نام والے لوگوں کی بے گناہی پر بات کی؟ حقوق انسانی کے کارندوں نے کبھی اس کی خبر لی؟ سیکولرازم کا درس دینے والے کہیں حرکت میں نظر آئے؟
کنہیا کمار تو ترقی کی سیڑھی چڑھتے جائیں گے۔ کیوںکہ ان کا سماج ان کے ساتھ ہے۔ اب تو کانگریس بھی ان کی مائی باپ بن گئی۔ کسے خبر کل کو بھاجپا بھی پناہ گاہ بن جائے۔ وہ کانگریسی سے بھاجپائی بن جائے ۔ یہ سیاست ہے کچھ بھی خارج از امکان نہیں ہے۔ اور سیاست کو ایسے لوگوں کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔
بے گناہ نوجوان جیلوں میں بند
دہشت گردی کے الزام میں ہزاروں پڑھے لکھے مسلم نوجوان جیلوں میں سڑائے گئے۔ جیلوں میں ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک روا رکھا گیا۔ انہیں ایسے گناہوں کا عتاب جھیلنا پڑا جو ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں رہا۔ لمبے عرصے تک انصاف کے نام پر وکیلوں کی جرح کا رسمی ڈرامہ ہوتا رہا۔ تاریخ پر تاریخ آتی رہی۔ ان کے رشتے دار، بچے، والدین منتظر رہے کہ اب انصاف ملے گا تب انصاف ملے گا مگر ایسا نہ ہونا تھا نہ ہوا۔ اسی بے رحم آپا دھاپی میں کسی کے سترہ سال نکل گئے۔ کسی کے پچیس سال تو کسی کے بائیس سال۔ کسی نے جیل میں ہی دم توڑ دیا۔ اخیر میں عدالت نے یہ کہہ کر احسان کیا کہ ملزم فلاں کے خلاف کوئی ثبوت نہ ہونے کے سبب عدالت اسے باعزت بری کرتی ہے۔
کیا "باعزت بری” کرنا؟ ہہ بھی کیسا فرمان ہے جس کے آنے میں ملزم کو اپنی زندگی کے قیمتی بیس پچیس سال جیل میں گزارنے پڑے۔ جب جیل گئے تھے تن و مند جوان تھے۔ جب جیل کی چہار دیواری سے باہر آئے تو جوانی کی بہاریں ہوا ہوچکی تھیں۔ بڑھاپے نے پیر پسار لیے تھے۔
یوپی کا ایک بے گناہ ملزم
شاید آپ کو یاد ہوگا یوپی کا ایک نوجوان اسی دہشت گردی کیس میں جیل گیا تھا، اس کی شادی کے زیادہ دن بھی نہیں گزرے تھے۔ بیوی حاملہ ہوگئی اور وہ جیل چلا گیا۔ پچیس سال بعد جب باعزت بری کا آرڈر آیا تو اس کے بیٹے کو ایک بیٹا ہوچکا تھا۔ سوچیے یہ کس قدر درد ناک لمحہ ہوگا۔ کیا ان جیسے لوگوں کے درد و کرب کو ہم محسوس نہیں کرتے؟ قتل صرف یہ نہیں ہے کہ آپ کسی پر ہتھیار سے وار کر کے سانسیں چھین لیں بلکہ سانسوں کے لیے وینٹلیٹر پر پڑے شخص کو بروقت رسپائریٹوری انہیلر نہ دینا بھی قتل ہی تو ہے۔
وہ زہر دیتا تو سب کی نگہ میں آ جاتا
سو یہ کیا کہ مجھے وقت پہ دوائیں نہ دیں
محسن کش قوم نے کبھی یہ کوشش نہیں کی کہ سرکار سے، عدلیہ سے ان جیسے بے گناہ لوگوں کے قیمتی ماہ و سال کا ہرجانہ مانگ لیا جائے۔ سوچ کر چپ رہنا کہ وہ سالہا سال جو جیل کی کال کوٹھری کی نذر ہوگئے وہ لوٹائے نہیں جاسکتے تو پھر مسلم قوم کے لڑکے کب تک کسی کے جنونی تجربہ کا ذریعہ بنی رہیں؟
یہاں ہر کسی کو اپنی پڑی ہے کسی کو کسی کے بننے بگڑنے سے کوئی سروکار نہیں۔ عمر و شرجیل جیسے لوگوں کے ساتھ بھی ایسا ہو سکتا ہے۔ آپ کے ساتھ بھی اور میرے ساتھ بھی۔ کیوں کہ ہم با غیرت و باہمت نوجوانوں کے لیے لڑنے والا کوئی نہیں ہے۔ سماج میں تماش بین تو بہت ہیں۔ یہ بے حس بے شعور قوم کی علامت ہے۔ بے حس قوم اپنے جاں بازوں، دلیروں کو بے سہارا چھوڑ کر خود کو غیروں کے رحم و کرم پر ڈال لیتی ہے۔ کیفی اعظمی نے کہا تھا کہ
کوئی تو سود چکائے کوئی تو ذمہ لے
اس انقلاب کا جو آج تک ادھار سا ہے
[ادارے کا مضمون نگار کے آراء و افکار سے متفق ہونا ضروری نہیں]

