بہار میں تبدیلی کا وعدہ: لالو خاندان کی عوام سے ووٹنگ کی اپیل

پرانے چہرے، نئے خواب: بہار اسمبلی انتخابات میں لالو...

کیرالہ میں غربت کے خاتمے پر چین کے سفیر نے دی مبارکباد

کیرالہ کی حکومت نے انتہائی غربت کے خاتمے میں...

اندرا گاندھی کو کانگریس کا خراجِ تحسین: مسز گاندھی کی یادیں تاریخ کو زندہ کرتی ہیں

کانگریس نے ’شکتی استھل‘ پر اندرا گاندھی کی جدوجہد...

جے این یو میں تشدد کا واقعہ: طلبہ گروپوں کے درمیان جھڑپ کی حقیقت

دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو)...

سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے تحفظ کے تئیں انتظامیہ کی بے رخی پر اخترالایمان نے سڑکوں پر اترنے کی دی دھمکی

جہاں بعض لوگ سیمانچل میں سیلاب کی وجہ سے ندی کٹاؤ سے متعلق مسائل کو حل نہ کرنے کے لئے اے آئی ایم آئی ایم کے نو منتخب ارکان اسمبلی پر الزامات عائد کرتے نہیں تھک رہے ہیں وہیں امور اسمبلی حلقہ سے مجلس کے ایم ایل نے انتظامیہ سے ملاقات کرکے سڑکوں پر اترنے کی دھمکی دے ڈالی

پورنیہ: آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین بہار کے ریاستی صدر اور امور اسمبلی حلقہ سے منتخب ایم ایل اے جناب اختر الایمان صاحب نے آج بروز منگل پورنیہ ڈویژنل کمشنر سے ملاقات کی اور سیلاب سے متاثرہ علاقوں سے متعلق ان گنت مسائل کے بارے میں اطلاع دیتے ہوئے ڈھیر سارے مطالبات کئے۔

جناب اختر الایمان صاحب نے کہا کہ اے آئی ایم آئی ایم نے علاقے کے بنیادی مسائل کے بارے میں بات کی ہے اور ان مسائل کو ایوان سے وزیر تک بلکہ وزیر اعلی اور متعلقہ محکمہ تک بھرپور انداز میں آواز بلند کیا ہے۔ سیلاب کی وجہ سے متاثرہ کھیتوں سے متعلق اخترالایمان صاحب نے کہا کہ اس علاقے میں بارش کی وجہ سے کافی کھیت تباہی کی شکار ہیں اور برسات کے موسم میں حالات کافی پریشان کن ہوجاتے ہیں۔ کہیں بھی بچاؤ کا کام اب تک شروع نہیں ہوا ہے بلکہ اب تک حکومت اس حوالے کچھ بھی کام کرنے میں ناکام رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ گھنی ندیوں میں کشتیاں نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کی ڈوب کر موتیں ہورہی ہیں۔

بہار میں سیلاب سے متاثرہ بدترین علاقہ سیمانچل

واضح رہے کہ سیمانچل کی معاشی اور معاشرتی پسماندگی کی وجہ سے یہاں سیلاب ایک لعنت کی شکل میں آتا ہے۔ پورے بہار میں سیلاب سے متاثرہ بدترین علاقہ سیمانچل ہی کا ہے۔ ہر سال ندی کٹنے کی وجہ سے نہ صرف ہزاروں ایکڑ زرعی اراضی ندی میں ضائع ہوجاتی ہے بلکہ ہزاروں خاندانوں کو بھی اس کی وجہ سے تباہی و بربادی کا شکار ہونا پڑتا ہے۔ کروڑوں روپے کی مالیت کی سرکاری عمارتیں، عام لوگوں کے مکانات اور عوامی سڑکوں کو نقصان پہنچتا ہے۔

مجلس بہار کے ریاستی صدر نے کہا کہ "پچھلے 2-3 سالوں سے جن علاقوں میں لوگ ندی کے کٹنے کی وجہ سے پریشان ہیں، اگر حکومت چاہتی تو ان علاقوں میں تحفظات کے کام ہوسکتے تھے۔ لیکن حکومت کی غفلت اور متعلقہ محکموں کے نظرانداز کرنے کے رویے کی وجہ سے، ان مسائل کے حل کے لئے ابھی تک کوئی جامع منصوبہ بندی نہیں ہوئی ہے، جس کی وجہ سے لوگ ہجرت کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔”

اس وقت پھر سے زور و شور سے ان مسائل پر آواز اٹھانے کی وجہ بتاتے ہوئے جناب اخترالایمان نے کہا کہ چوں کہ ابھی ندیوں کے پانی کی سطح کم ہے، تو ابھی وقت ہے کہ جلد از جلد اس پر کام کیا جائے اور لوگوں کی جان ومال کو تباہی سے بچایا جائے۔ انہوں نے حکومت اور انتظامیہ کو صلاح دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت ندیوں پر چچڑی پل بھی تعمیر کیے جاسکتے ہیں۔ کشتیوں کا انتظام کیا جاسکتا ہے، غوطہ خوروں اور این ڈی آر ایف سی کی ٹیمیں بلاک سطح پر تعینات کئے جاسکتے ہیں۔ متاثرہ افراد کے لئے کیمپ بناکر محفوظ پناہ گاہ پر روشنی اور کھانے کے انتظامات کیے جانا بھی بے حد ضروری ہے۔

سیلاب سے متعلق مسائل کو لے کر عوام میں سخت ناراضگی اور مایوسی

واضح ہو کہ سیلاب سے متعلق مسئلے سے متعلق عوام میں سخت ناراضگی اور مایوسی پائی جاتی ہے۔ اس لئے بہار مجلس کے ریاستی صدر نے کہا کہ AIMIM لوگوں کے ان مسائل کو خاموشی سے برداشت نہیں کرسکتی ہے۔ اگر جلد سے جلد ہی ان مسائل کے حل کے لئے اقدامات نہ کئے جائیں تو وہ سڑکوں پر نکلنے پر مجبور ہوجائیں گے اور اس کا ذمہ دار صرف اور صرف حکومت ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ "حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کے جان و مال اور یہاں تک کہ کھیت کھلیانوں کو تحفظ فراہم کرے۔ اگر یہ کام بارش کے موسم سے پہلے ہی کرلیا جاتا، تب سالماری اسکول، تاراباری کے مکانات اور بہادر گنج، کشن گنج، بیلوا کے کروڑوں مالیت کی تباہی اور بربادی کو روکا جاسکتا تھا۔”

بتادیں کہ ہر سال بارش سے پہلے آنے والے سیلاب اور اس سے ہونے والی ممکنہ تباہیوں کے بارے میں مسائل اخبارات میں زیر بحث آتے ہیں، اس کے باوجود یہاں نہ کشتیاں ہیں، نہ غوطہ خور دیکھنے کو مل رہے ہیں اور نہ ہی کوئی حفاظتی جال نظر آتا ہے۔ لوگوں کی زندگی اور املاک کے تحفظ کا کوئی انتظام نظر نہیں آتا ہے۔

بلاک سطح کے عہدیداروں اور ایس ڈی او کو ندیوں کی تعداد کا علم نہیں

جناب اخترالایمان نے بدنظمی سے متعلق مزید تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ "ڈیزاسٹر مینول کے مطابق لوگوں کو بچانے کا کوئی انتظام نہیں کیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ بلاک سطح کے عہدیداروں اور ایس ڈی او کو ندیوں کی تعداد کا علم نہیں ہے، اور نہ ہی یہ معلوم ہے کہ کتنے گھاٹوں پر کشتیاں چلایا جانا چاہئے۔”

انہوں نے مطالبہ کیا کہ تمام ندیوں میں کشتیوں کا انتظام کیا جائے، کشتی ایمبولینس کا بندوبست کیا جائے، تارکین وطن کو امدادی سازوسامان فراہم کئے جائیں، اور ڈیزاسٹر مینول کے اصول کے مطابق بے گھر لوگوں کی بازآبادکاری کے انتظامات کیے جائیں اور ان لوگوں کے بسانے کا بھی انتظام کیا جائے جو برسوں سے بے گھر ہیں۔

جناب اختر الایمان نے مزید کہا کہ "غریب لوگ جو حکومت کی نظراندازی کی وجہ سے دوسری ریاستوں کا سفر کرکے ہجرت کرنے پر مجبور ہیں، وہی لوگ آج اپنے گھروں کو بچانے کے لئے لاکھوں روپے کی لاگت سے امور، بیسا، کشن گنج اور بہادر گنج کے کئی علاقوں میں اپنی ذاتی کوشش پر لاکھوں روپے کے اخراجات سے حفاظتی انتظامات کرنے کی کوشش کی ہے۔”

انہوں نے اخیر میں کہا کہ مہانندا بیسن اور ندیوں کو ضم کرنے کے لئے حکومت ہمیشہ لولی پاپ دیکھاکر چپ ہوجاتی ہے اور زمینی سطح پر اس سے متعلق کسی بھی ترقیاتی کام کو انجام نہیں دیا جاتا۔ انتظامیہ کو اس مسئلے حل کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سیلاب کے انتظامات کے کام کرنے کے لئے ایک اعلی سطحی ٹیم تشکیل دے کر اس علاقے میں برسات کی صورتحال کا اندازہ کرکے منظم منصوبہ بندی کی جانی چاہئے۔