امریکہ بہادر افغانستان سے ۲۰؍ سال کے بعد اپنی ناکامی کا پلندہ تو باندھ رہا ہے، لیکن پیچھے چھوڑا ہے افغان قوم کی تباہی و بربادی کا سلسلہ
تحریر: ڈاکٹر یامین انصاری
امریکہ دنیا کی سپر پاور ہے۔ سب سے بڑی جمہوریت ہے۔ بظاہر وہ انسانی حقوق کا سب سے بڑا علمبردار اور انصاف پسند بھی ہے۔ وہ رات کو دن کہے تو دن ہے، اور دن کو رات کہے تو رات ہے۔ اس کو لگتا ہے کہ دنیا کا کوئی بھی ملک یا کوئی حکمراں اس کو آنکھ دکھانے اور اس سے ٹکرانے کی جرأت نہ کرے۔ اس سرزمین پر اس کی مرضی کے بغیر کوئی پتہ بھی نہ ہلے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا ہے یا کوئی ایسا نہیں کرتا ہے تو وہ امریکہ کا نہیں، انسانیت کا دشمن ہو جاتا ہے۔ امریکہ دوسرے ملکوں میں کس قسم کی جمہوریت چاہتا ہے یہ آج تک ایک معمہ ہی بنا ہوا ہے۔ بھلے ہی کسی ملک کے عوام نے رائے شماری کے ذریعہ اپنا رہنما منتخب کیا ہو، لیکن اگر امریکہ اس کے گلے میں تانا شاہ کا پٹہ ڈال دیتا ہے تو دنیا کو ماننا ہوگا کہ وہ تانا شاہ ہے۔ وہیں اگر کسی تانا شاہ کو وہ جمہوریت پسند کا تمغہ دے دیتا ہے تو وہ جمہوری لیڈر بن جاتا ہے۔
امریکہ نے بھلے ہی دنیا پر اپنے فیصلے تھوپنے کی نہ جانے کتنی کوششیں کی ہیں، کتنے ہی ملکوں کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیا ہے، کتنے ہی سربراہان مملکت کو ابدی نیند سلا دیا ہے، لیکن حقیقت میں آج تک کوئی اس کو عالمی طاقت یا عالمی رہنما تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے۔
افغان قوم کی تباہی اور بربادی کا لا متناہی سلسلہ
۲۰۰۳ء میں امریکہ نے ایک خوش حال اور ترقی یافتہ ملک عراق میں ’جمہوریت‘ قائم کرنے کیلئے دھاوا بولا۔ صدر صدام حسین کی حکومت کو تہہ و بالا کر دیا، انھیں پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا، لیکن دس سال کے بعد وہاں سے دس لاکھ لاشوں کا قبرستان بناکر نکل بھاگا۔ ۲۰۱۱ء میں وہ شام کو صدر بشار الاسد کی تاناشاہی سے نجات دلانے پہنچا، لیکن امریکہ نے وہاں داعش جیسی نہ جانے کتنی دہشت گرد تنظیموں کو پیدا کرکے یوں ہی چھوڑ دیا۔ پورا ملک کھنڈہر میں تبدیل ہو گیا۔ نہ ڈکٹیٹر بشار الاسد سے نجات ملی اور نہ ہی وہاں کوئی جمہوریت کا نام لینے والا باقی رہا۔ ۲۰۰۱ء میں افغانستان میں طالبان اور القاعدہ کے خلاف مہم کے نام پر یلغار کر دی۔ اب ۲۰؍ سال کے بعد امریکہ وہاں سے اپنی ناکامی کا پلندہ تو باندھ رہا ہے، لیکن پیچھے چھوڑ دیا ہے افغان قوم کی تباہی اور بربادی کا لا متناہی سلسلہ۔ اب جبکہ امریکہ نے افغانستان سے راہ فرار اختیار کر لی ہے تو اس جنگ میں اس نے اور افغانستان نے کیا کھویا اور کیا پایا، اس کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے۔
افغانستان جنگ کے خاتمے کا اعلان کرتے ہوئے امریکہ نے تقریباً اپنی ناکامی کا اعتراف کر لیا
پچھلے ۲۰؍ برس سے جاری افغانستان جنگ کے خاتمے کا اعلان کرتے ہوئے امریکہ نے تقریباً اپنی ناکامی کا اعتراف کر لیا ہے۔ یہ جنگ امریکہ کے گلے میں پھنسی ایسی ہڈی بن گئی تھی جسے وہ نہ نگل سکتا تھا اور نہ ہی اُگل سکتا تھا۔ یہی وجہ ہے امریکہ کا صدر بنتے ہی جو بائیڈن نے اعلان کر دیا کہ ۱۱؍ ستمبر ۲۰۲۱ء تک تمام امریکی فوجی دستے افغانستان سے واپس بلالیے جائیں گے۔ حالانکہ اس کا فیصلہ گزشتہ سال طالبان کے ساتھ قطر میں کیے گئے معاہدے میں ہوگیا تھا۔ اب افغانستان میں سب سے بڑا فوجی اڈہ بند کرنے کے ساتھ ہی گویا امریکہ نے افغان جنگ کے خاتمے کا باقاعدہ اعلان کردیا۔ کابل سے تقریباً ۶۰؍ کلومیٹر دور بگرام ایئر بیس سے امریکی افواج کی وطن واپسی افغانستان میں امریکی مداخلت کا خاتمہ مانا جا رہاہے، کیونکہ امریکہ اور اس کے اتحادی اسی ایئر بیس سے یہاں کی اپنی تمام تر کارروائیاں انجام دیتے تھے۔
۱۱؍ ستمبر ۲۰۰۱ء کو امریکہ میں ہوئے دہشت گردانہ حملوں کا انتقام لینے کی غرض سے اس نے افغانستان پر دھاوا بولا تھا۔ دراصل ان حملوں کی ذمہ داری القاعدہ کے سر جاتی تھی، جس کا سربراہ اسامہ بن لادن اس وقت افغانستان میں طالبان کی پناہ میں تھا۔ لہذا امریکہ نے ’دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ‘ کا آغاز کرتے ہوئے ۷؍ اکتوبر۲۰۰۱ء کو طالبان اور القاعدہ پر فضائی حملوں کا آغاز کیا۔ اس جنگ میں ایک جانب تھے شمالی اتحاد، امریکہ، برطانیہ، کناڈا، آسٹریلیا، اٹلی، نیوزی لینڈ اور جرمنی تو دوسری جانب مقابلے میں تھے اسلامی امارت افغانستان، القاعدہ، ۰۵۵؍ برگیڈ، حرکت اسلامی ازبکستان، تحریک نفاذ شریعت محمدی اور ترکستان اسلامی پارٹی۔ ۱۳؍ نومبر ۲۰۰۱ء کو – امریکہ کے حمایت یافتہ شمالی اتحاد کی فوجیں کابل میں داخل ہو گئیں اور طالبان جنوب کی طرف پسپا ہو گئے۔ یعنی تقریباً ایک مہینے کی کار روائی نے طالبان رہنماؤں کو فرار ہونے پر مجبور کر دیا۔ ۲؍ مئی ۲۰۰۳ء کو – امریکی حکام نے افغانستان میں اہم جنگی آپریشن کے خاتمے کا اعلان کر دیا۔
طالبان ایک مضبوط طاقت بن کر ایک بار پھر آئے سامنے
اسی دوران مسلمانوں کے خون کے پیاسے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کی زیر قیادت امریکہ نے عراق پر حملے کی تیاریاں شروع کر دیں۔ جس کے لیے بڑے پیمانے پر امریکی فوجی اور جنگی ساز و سامان وہاں منتقل کر دیا گیا۔ ادھر افغانستان میں بھلے ہی جنگ کے خاتمہ کا اعلان ہو گیا، لیکن حقیقتاً یہ جنگ کا آغاز ثابت ہوا۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی توجہ منتقل ہونے کے سبب طالبان، القاعدہ اور دوسری مزاحمتی تنظیموں کو دوبارہ منظم ہونے کا موقع ملا، جس نے ملک کے جنوبی اور مشرقی علاقوں میں اپنے قدم مضبوط کر لیے۔ تا دم تحریر طالبان ایک مضبوط طاقت بن کر ایک بار پھر سامنے آئے ہیں اور بہت ممکن ہے کہ امریکہ کے جاتے ہی وہاں وہ دوبارہ بر سر اقتدار آ جائیں۔ ایسے خدشات کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے کہ اگر طالبان اقتدار میں نہ آ سکے تو وہاں ایک بار پھر شدید خانہ جنگی کا آغاز ہو جائے گا۔ یعنی افغان قوم کے مقدر میں تباہی و بربادی کا سلسلہ جاری رہے گا۔
افغان جنگ میں بظاہر امریکہ کا اصل مقصد القاعدہ، القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی گرفتاری تھا، لیکن افغانستان کے ریگزاروں سے لے کر تورا بورا کے پہاڑوں تک اس نے اسامہ کو تلاش کیا، مگر اس کی گرفتاری نہیں کر سکا۔ اسامہ کا کردار، اس کی زندگی اور اس کا خاتمہ آج بھی ایک معمہ ہی بنا ہوا ہے۔ بہر حال، ایک رپورٹ کے مطابق اس ۲۰؍ سالہ جنگ میں ۲؍ لاکھ ۴۱؍ ہزار افراد ہلاک ہوئے۔ ان میں ۷۱؍ ہزار۳۴۴؍ عام شہری، ۲؍ ہزار ۴۴۲؍ امریکی فوجی اہلکار، ۷۸؍ ہزار۳۱۴؍ افغان سیکیورٹی اہلکار اور ۸۴؍ ہزار ۱۹۱؍ مخالفین کی ہلاکتیں شامل ہیں۔ پچھلے دنوں جاری اس رپورٹ کے مطابق اس جنگ پر اب تک امریکہ کے ۲۲؍ کھرب ۶۰؍ ارب ڈالر خرچ ہوئے ہیں۔
طالبان کو اقتدار سے بے دخل کرنے والا امریکہ ہی ان کی واپسی کا بھی ذمہ دار
امریکہ جس طرح افغانستان کو بے یار و مددگار چھوڑ کر جا رہا ہے، اس سے یقیناً طالبان کے حوصلے بلند ہیں۔ اس وقت طالبان وہاں مضبوط طاقت ہیں اور جس انداز میں امریکہ نے راہ فرار اختیار کی ہے، اسے طالبان نے اپنی فتح سے تعبیر کیا ہے۔ جیسے ہی امریکہ کے انخلا کا اعلان ہوا اور فوجوں کی روانگی شروع ہوئی، طالبان نے یکے بعد دیگرے ملک کے مختلف صوبوں اور شہروں پر قبضہ کرنا شروع کر دیا۔ یہ قبضے کئی جگہ خونریز تصادم کے بعد ہوئے اور کئی جگہ موجودہ اشرف غنی حکومت کی فوجوں نے خود ہی ہتھیار ڈال دئے۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے دعویٰ کیا ہے کہ طالبان نے ۱۵۳؍ اضلاع کا مکمل کنٹرول حاصل کر لیا ہے، جس میں سےتقریباً ۱۰۰؍ اضلاع ملک کے شمال میں ہیں۔ یہ خبر بھی آئی ہے کہ تقریباً ایک ہزار افغان فوجی اپنی جان بچانے کی خاطر تاجکستان میں داخل ہو گئے۔ ایسا مانا جا رہا ہے کہ بہت جلد پورے افغانستان پر طالبان کا قبضہ ہو جائے گا۔ اور اگر ایسا ہوا تو طالبان کو اقتدار سے بے دخل کرنے والا امریکہ ہی ان کی واپسی کا بھی ذمہ دار ہوگا۔
اس کے ساتھ ہی سبھی پڑوسی ملکوں اور جن کے مفادات افغانستان سے وابستہ ہیں جیسے پاکستان، ایران، ہندوستان، چین، روس اور تاجکستان وغیرہ کی نظریں نہ صرف افغانستان کے موجودہ حالات پر مرکوز ہیں، بلکہ اپنے اپنے مفادات کے پیش نظر وہ آئندہ کی حکمت عملی میں بھی مصروف ہیں۔ مستقبل میں افغانستان میں امن قائم ہوگا یا خونریزی کا سلسلہ جاری رہے گا، اس کا انحصار بہت حد تک انہی ممالک پر ہوگا۔ دیکھنا ہے کہ آئندہ یہ تمام طاقتیں طالبان کے ساتھ کس قسم کا رویہ اختیار کرتی ہیں۔
(مضمون نگار انقلاب دہلی کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر ہیں) ای میل: yameen@inquilab.com

